واشنگٹن: امریکہ نے ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سکیورٹی اور اس کے وزیر کو البانیا پر جولائی میں ہونے والے سائبر حملے سے منسلک ہونے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دیگر سائبر سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ڈان میں شائع خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اس واقعے کے رد عمل میں البانیا کی جانب سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد اٹھایا گیا ہے، جس کے تحت ایرانی سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی وزارت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی سائبر حملوں کے متعدد نیٹ ورکس کو ہدایات جاری کرتی ہے، جن میں ایرانی حکومت کی حمایت میں سائبر جاسوسی اور رینسم ویئر حملوں میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہم ایران کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سائبر سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔'Albania cyberattack
ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی پر پہلے ہی امریکی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، تازہ پابندیوں کے حوالے سے تبصرے کے لیے اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مائیکروسافٹ (جس کی سائبر سیکیورٹی ریسرچ ٹیم نے واقعے کی تحقیقات میں مدد کی) کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا گیا کہ ایرانی سائبر آپریشن میں ڈیجیٹل جاسوسی کی تکنیکوں، ڈیٹا کو مٹانے والے میلویئر اور آن لائن معلومات کے آپریشنز شامل ہیں۔ محققین کے مطابق ہیکرز کا مقصد البانی حکومت کے عہدیداروں کو شرمندہ کرنا تھا۔جولائی میں ہونے والے سائبر حملوں نے سرکاری ویب سائٹس اور دیگر عوامی سروسز کو عارضی طور پر متاثر کیا، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس آپریشن کا مقصد البانیا کو ان کے ملک میں مقیم ایرانی مخالف گروپ 'مجاہدینِ خلق' کی حمایت کرنے پر سزا دینا تھا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں مزید کہا کہ ایران نے سائبر اسپیس میں امن کے ذمہ دار ریاستی رویے کے اصولوں کو نظر انداز کیا۔
یو این آئی