ETV Bharat / international

Death Penalty in Saudi Arabia سعودی عرب میں انسانی حقوق کے گروپوں نے سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا - سعودی عرب سزائے موت پر اقوام متحدہ کا بیان

سعودی عرب میں حالیہ سزائے موت کے بعد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ملک میں سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ United Nations on Saudi Arab Death Penalty

سعودی عرب میں انسانی حقوق کے گروپوں نے سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا
سعودی عرب میں انسانی حقوق کے گروپوں نے سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا
author img

By

Published : Nov 29, 2022, 2:27 PM IST

واشنگٹن: سعودی عرب میں حالیہ سزائے موت کے بعد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ملک میں سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان خاص طور پر منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے کے سعودی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "انتہائی افسوسناک قدم" قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا بھر میں موت کی سزا پر پابندی لگانے کے لئے ممالک کے وسیع اتفاق رائے کے کچھ ہی دن بعد ہی منشیاب اور دیگر الزامات پر سزا دینا پھر سے شروع ہوگیاہے۔ human rights groups calls abolition of death penalty in Saudi

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (یو این) کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ "بین الاقوامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا"۔ سعودی عرب میں 10 نومبر سے اب تک منشیات کے الزام میں 17 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے جن میں تین پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان تینوں میں سے منت خان کا بیٹا گلزار خان، تھا، جس کی پھانسی کی تصدیق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر ) کے دفتر نے 22 نومبر کو کی تھی۔ اسے ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ او ایچ سی ایچ آر ترجمان الزبتھ تھروسل نے کہا کہ سعودی عرب میں اس ماہ کے آغاز سے تقریباً روزانہ سزائے موت دی جا رہی ہے، جب سعودی حکام نے منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر 21 ماہ کی غیر رسمی پابندی ختم کر دی ۔ آج تک پھانسی پانے والوں میں تین پاکستانی، چار شامی، تین اردنی اور سات سعودی افرادشامل ہیں۔

واشنگٹن: سعودی عرب میں حالیہ سزائے موت کے بعد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ملک میں سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان خاص طور پر منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے کے سعودی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "انتہائی افسوسناک قدم" قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا بھر میں موت کی سزا پر پابندی لگانے کے لئے ممالک کے وسیع اتفاق رائے کے کچھ ہی دن بعد ہی منشیاب اور دیگر الزامات پر سزا دینا پھر سے شروع ہوگیاہے۔ human rights groups calls abolition of death penalty in Saudi

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (یو این) کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ "بین الاقوامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا"۔ سعودی عرب میں 10 نومبر سے اب تک منشیات کے الزام میں 17 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے جن میں تین پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان تینوں میں سے منت خان کا بیٹا گلزار خان، تھا، جس کی پھانسی کی تصدیق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر ) کے دفتر نے 22 نومبر کو کی تھی۔ اسے ہیروئن کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ او ایچ سی ایچ آر ترجمان الزبتھ تھروسل نے کہا کہ سعودی عرب میں اس ماہ کے آغاز سے تقریباً روزانہ سزائے موت دی جا رہی ہے، جب سعودی حکام نے منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر 21 ماہ کی غیر رسمی پابندی ختم کر دی ۔ آج تک پھانسی پانے والوں میں تین پاکستانی، چار شامی، تین اردنی اور سات سعودی افرادشامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Iran Human Rights Violations ایران میں انسانی حقوق سے متعلق یو این کی قرارداد منظور، بھارت کی ووٹنگ سے دوری

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.