انقرہ: ترکی میں اتوار کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جس میں 64.1 ملین سے زائد ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ ترکی کے الیکشن میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ان کے حریف کمال اوغلو میں سخت مقابلہ ہے۔ کمال اوغلو چھ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے امیدوار ہیں اور دو دہائیوں سے برسر اقتدار اردوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ وہ اب بھی ملک کا صدارتی انتخاب جیت سکتے ہیں لیکن اگر دو ہفتوں کی دوڑ میں رن آف ووٹ ہوا تو وہ قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتوار کے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج ابھی تک غیر واضح ہیں لیکن دعویٰ کیا کہ وہ 'واضح برتری میں' ہیں۔اردوان نے پیر کو کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں معلوم کہ انتخابات پہلے راؤنڈ میں ختم ہوئے یا نہیں.... اگر ہماری قوم نے دوسرے راؤنڈ کے لیے انتخاب کیا ہے، تو یہ بھی خوش آئند ہے۔اردوان نے 20 سالوں سے اپنے ملک پر تیزی سے مضبوط گرفت کے ساتھ حکمرانی کی ہے، اتوار کے روز ترکی میں ووٹنگ ہوئی جہاں اردوان اور ان کے حریف کے درمیان سخت مقابلہ دیکھا جارہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق، اردوان کو 49.6 فیصد ووٹ ملے ہیں، جب کہ کمال قلیچدار اوغلو کو 44.7 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی صدارتی امیدوار کے لیے جیت کے لیے کل ووٹوں کا نصف ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے بھی نصف ووٹ حاصل نہ کیا تو سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان 28 مئی کو رن آف الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔واضح رہے کہ جمعہ کے روز اردوان نے کہا تھا کہ انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں گے وہ ان کا احترام کریں گے۔ یاد رہے اردوان 2003 سے تمام انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ نیو یارک کی سینٹ لارنس یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور سیاست کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہاورڈ ایزنسٹیٹ نے کہا کہ صدر کی پارٹی اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر 'منقسم حکومت' نہیں چاہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں :Turkey Elections صدر ایردوان کے کئی ٹیلی ویژن چینلز کی مشترکہ نشریات میں ایجنڈے کے موضوعات پر جائزے