ETV Bharat / international

United Nations طالبان انتظامیہ لیکچرار مشال کو فوری رہا کریں - لیکچرار مشال کو فوری رہا کریں

مشال کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے وزارت اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر عبدالحق حماد نے ٹویٹ کیا، "ٹیچر مشال کچھ عرصے سے نظام کے خلاف اشتعال انگیز سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ اس لیے سیکیورٹی اداروں نے انہیں تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا ہے۔"

اقوام متحدہ
اقوام متحدہ
author img

By

Published : Feb 4, 2023, 9:33 PM IST

کابل، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے طالبان انتظامیہ سے یونیورسٹی کے صحافت کے لیکچرار اسماعیل مشال کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔رچرڈ بینیٹ نے ٹویٹ کیا، "مجھے طالبان کے ہاتھوں پرامن تعلیمی کارکن اور یونیورسٹی کے لیکچرار اسماعیل مشال کی گرفتاری پر تشویش ہے۔"

مشال نے دسمبر میں ٹی وی پر اپنے ڈگری سرٹیفکیٹ پھاڑ کر خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے خاتمے کے حکم نامے پر احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کر دیا۔ حالیہ دنوں میں گھریلو چینلز نے مشال کو کابل میں کتابیں لے کر راہگیروں کو دیتے ہوئے دکھایا ہے۔جس کے بعد افغانستان کی خواتین کی آزادی اور تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والے مشال کو طالبان حکام نے حراست میں لے لیا ہے۔مشال کے معاون فرید احمد فضلی نے میڈیا کو بتایا کہ طالبان حکومت کے ارکان نے لیکچرار کو بے دردی سے مارا پیٹا اور انتہائی ذلت آمیز طریقے سے لے گئے۔

فضلی نے کہا، "مشال نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کابل کی تین یونیورسٹیوں میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں۔ انہیں بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا گیا کیونکہ وہ خواتین اور مردوں کو مفت کتابیں دے رہے تھے۔ انہیں کہاں رکھا گیا ہے یہ اب تک تپی نہیں چل سکا ہے۔"

مشال گزشتہ دسمبر میں ایک چینل پر طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور عوامی زندگی میں رہنے پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سامنے آئے جس میں انہیں اپنی ڈگری کا سرٹیفکیٹ تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ طالبان حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے کابل کے ارد گرد کے لوگوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ ان کا یہ قابل ستائش کام یہاں کے کئی مقامی ٹی وی پر دکھایا گیا۔

اس سے قبل لیکچرر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک انسان اور ایک استاد ہونے کے ناطے میں ان کے لیے مزید کچھ کرنے سے قاصر تھا اور مجھے لگا کہ میرے سرٹیفکیٹ بیکار ہو گئے ہیں، اس لیے میں نے انہیں پھاڑ دیا، میں اپنی آواز اٹھا رہا ہوں، میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میرا احتجاج جاری رہے گا چاہے اس میں میری جان کیوں نہ چی جائے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آنے پر نرم حکومت کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انہیں عوامی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ دسمبر میں حکام نے تمام امدادی گروپوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کو کام پر آنے سے روک دیں۔ اس کے بعد اس نے خواتین کو صحت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت دے دی، لیکن خواتین کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی۔

اس کے علاوہ نوعمر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول ایک سال سے زائد عرصے سے بند ہیں اور خواتین کے پارکوں، جموں اور پبلک باتھ رومز میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے یونیورسٹی جانے پر پابندی کے بعد اب خواتین کو مکمل طور پر تعلیم سے دور کرنے کا ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق طالبان نے لڑکیوں کے پرائمری سکولوں میں جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اساتذہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اب کسی بھی عمر کی لڑکیوں کو نہیں پڑھا سکیں گے۔ یہ فیصلہ وزارت تعلیم اور شریعت نافذ کرنے والی وزارت کے حکام کے اجلاس میں کیا گیا۔

طالبان نے ایک اور سخت کارروائی کی ہے۔ انہوں نے مساجد میں بالغ خواتین کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ خواتین کے حقوق کی کارکن خدیجہ کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد 20 سال میں افغانستان میں جو اصلاحات ہوئی تھیں وہ اب رک چکی ہیں۔

مزید پڑھیں:UN On Afghanistan افغانستان کو یوں ہی نہیں چھوڑنا چاہئے، اقوام متحدہ

یواین آئی۔

کابل، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے طالبان انتظامیہ سے یونیورسٹی کے صحافت کے لیکچرار اسماعیل مشال کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔رچرڈ بینیٹ نے ٹویٹ کیا، "مجھے طالبان کے ہاتھوں پرامن تعلیمی کارکن اور یونیورسٹی کے لیکچرار اسماعیل مشال کی گرفتاری پر تشویش ہے۔"

مشال نے دسمبر میں ٹی وی پر اپنے ڈگری سرٹیفکیٹ پھاڑ کر خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے خاتمے کے حکم نامے پر احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کر دیا۔ حالیہ دنوں میں گھریلو چینلز نے مشال کو کابل میں کتابیں لے کر راہگیروں کو دیتے ہوئے دکھایا ہے۔جس کے بعد افغانستان کی خواتین کی آزادی اور تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والے مشال کو طالبان حکام نے حراست میں لے لیا ہے۔مشال کے معاون فرید احمد فضلی نے میڈیا کو بتایا کہ طالبان حکومت کے ارکان نے لیکچرار کو بے دردی سے مارا پیٹا اور انتہائی ذلت آمیز طریقے سے لے گئے۔

فضلی نے کہا، "مشال نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کابل کی تین یونیورسٹیوں میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں۔ انہیں بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا گیا کیونکہ وہ خواتین اور مردوں کو مفت کتابیں دے رہے تھے۔ انہیں کہاں رکھا گیا ہے یہ اب تک تپی نہیں چل سکا ہے۔"

مشال گزشتہ دسمبر میں ایک چینل پر طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور عوامی زندگی میں رہنے پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سامنے آئے جس میں انہیں اپنی ڈگری کا سرٹیفکیٹ تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ طالبان حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے کابل کے ارد گرد کے لوگوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ ان کا یہ قابل ستائش کام یہاں کے کئی مقامی ٹی وی پر دکھایا گیا۔

اس سے قبل لیکچرر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک انسان اور ایک استاد ہونے کے ناطے میں ان کے لیے مزید کچھ کرنے سے قاصر تھا اور مجھے لگا کہ میرے سرٹیفکیٹ بیکار ہو گئے ہیں، اس لیے میں نے انہیں پھاڑ دیا، میں اپنی آواز اٹھا رہا ہوں، میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میرا احتجاج جاری رہے گا چاہے اس میں میری جان کیوں نہ چی جائے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آنے پر نرم حکومت کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انہیں عوامی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ دسمبر میں حکام نے تمام امدادی گروپوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کو کام پر آنے سے روک دیں۔ اس کے بعد اس نے خواتین کو صحت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت دے دی، لیکن خواتین کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی۔

اس کے علاوہ نوعمر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول ایک سال سے زائد عرصے سے بند ہیں اور خواتین کے پارکوں، جموں اور پبلک باتھ رومز میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے یونیورسٹی جانے پر پابندی کے بعد اب خواتین کو مکمل طور پر تعلیم سے دور کرنے کا ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق طالبان نے لڑکیوں کے پرائمری سکولوں میں جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اساتذہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اب کسی بھی عمر کی لڑکیوں کو نہیں پڑھا سکیں گے۔ یہ فیصلہ وزارت تعلیم اور شریعت نافذ کرنے والی وزارت کے حکام کے اجلاس میں کیا گیا۔

طالبان نے ایک اور سخت کارروائی کی ہے۔ انہوں نے مساجد میں بالغ خواتین کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ خواتین کے حقوق کی کارکن خدیجہ کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد 20 سال میں افغانستان میں جو اصلاحات ہوئی تھیں وہ اب رک چکی ہیں۔

مزید پڑھیں:UN On Afghanistan افغانستان کو یوں ہی نہیں چھوڑنا چاہئے، اقوام متحدہ

یواین آئی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.