بغداد: عراق نے سویڈن کے سفیر کو چند گھنٹے بعد ملک بدر کر دیا ہے جب سویڈن میں قرآن کے نسخے جلائے جانے پر مشتعل عراقی مظاہرین نے وسطی بغداد میں واقع سویڈش سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور کمپاؤنڈ کی دیواریں توڑ کر اسے آگ کے حوالے کردیا۔ حکومت نے جمعرات کو کہا کہ عراقی وزیر اعظم نے سویڈن میں اپنے ملک کے چارج ڈی افیئرز کو بھی واپس بلا لیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کی صبح سویرے سفارت خانے میں مظاہرین نے جھنڈے لہرائے جن میں عراقی شیعہ مذہبی اور سیاسی رہنما مقتدیٰ الصدر کو دکھایا گیا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ عراقی رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے کیا ہے۔
سویڈن کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارت خانے کا تمام عملہ محفوظ ہے، لیکن یہ حملہ قابل مذمت ہے اور عراقی حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفارتی مشنوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ عراق کی وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی حکومت نے سیکورٹی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر تحقیقات کریں اور ضروری حفاظتی اقدامات اٹھائیں تاکہ اس فعل کے مرتکب افراد کی شناخت کی جا سکے اور انہیں قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔
تاہم بعد ازاں عراقی حکومت کی جانب سے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ اگر ملک میں دوسری مرتبہ قرآن کو نذر آتش کیا گیا تو وہ سویڈن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دے گی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عراقی حکومت نے سفارتی ذرائع سے سویڈش حکومت کو آگاہ کردیا ہے کہ سویڈش کی سرزمین پر دوبارہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی صورت میں سفارتی تعلقات منقطع کرنے پڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
- عراق کی انٹرپول سے قرآن جلانے والے شخص کی گرفتاری کی اپیل
- او آئی سی اجلاس کے بعد سویڈن حکومت کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کی مذمت
- پاکستانی قرارداد کو بھارت کی تائید، اقوام متحدہ میں مذہبی منافرت کے خلاف رزولوشن منظور
واضح رہے کہ سویڈش رپورٹ کے مطابق سویڈن میں عراقی پناہ گزین سلوان مومیکا نے دوبارہ قرآن کریم کو جلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ سلوان وہی شخص ہے جس نے اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے 28 جون کو عید الاضحی کے موقع پر قرآن کے ایک نسخے کے صفحات کو بھی نذر آتش کیا تھا جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے مذمت کی تھی۔ عراق، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، اردن اور مراکش سمیت متعدد مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس واقعے پر احتجاج درج کرایا تھا، یہاں تک کہ عراق نے اس شخص کو ملک میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے حوالگی کا بھی مطالبہ کیا۔