ETV Bharat / international

Protests in Iran ایران کے کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری - ایران میں احتجاج

ایران کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ زیر حراست طلبہ کو رہا کیا جائے۔ یاد رہے کہ 13 ستمبر کو دارالحکومت تہران میں 22 سالہ مہسا ایمانی کو اخلاقی پولیس کے دستوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد 16 ستمبر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں وہ ہسپتال ہی میں انتقال کر گئیں جس پرعوام غم و غصے میں گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔Protests in Iran

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Oct 19, 2022, 7:13 PM IST

تہران: ایران کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ زیر حراست طلبہ کو رہا کیا جائے اور نئی نظر بندیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد ایران کے کئی شہروں میں شروع ہونے والے مظاہرے ایک ماہ سے جاری ہیں۔Protests in Iran

اسلامک انسٹی ٹیوشنز سٹوڈنٹس یونین کے ٹیلی گرام پیج پر شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے طلباء نے حکومتی ترجمان کے یونیورسٹی کے دورے کے دوران احتجاج کیا۔طلباء نے دعویٰ کیا کہ جب یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے سامنے خصوصی دستے اور منی بسیں موجود تھیں، رضاکار ملیشیا فورس بیسک کے دستوں اور نے یونیورسٹی طلباء کی درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی تصاویر میں مازندران یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے بھی مظاہرہ کیے جانے کو دیکھا جاسکتا ہے۔مظاہرین نعرے لگا رہے تھے ''ہمیں ملٹری یونیورسٹی نہیں چاہیے'' اور جب ہم سچ بولتے ہیں تو ہم پر حملے کیے جاتے ہیں۔'

13 ستمبر کو دارالحکومت تہران میں 22 سالہ مہسا ایمانی کو اخلاقی پولیس کے دستوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد 16 ستمبر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں وہ ہسپتال ہی میں انتقال کر گئیں جس پر عوام غم و غصے میں گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔

مظاہرے، جو 17 ستمبر کو ایمینی کے آبائی شہر ساکز میں جنازے کے بعد شروع ہوئے، کئی شہروں میں پھیل گئے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے 24 ستمبر کو اعلان کیا کہ مظاہروں میں سیکورٹی فورسز سمیت 41 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایرانی انسانی حقوق کی سرگرم ایجنسی (HRANA) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 17 ستمبر سے 14 اکتوبر کے درمیان 233 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 32 بچے اور 26 سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Elnaz Rekabi Competes without Hijab ایرانی خاتون ایتھلیٹ نے بغیر حجاب کے ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے پر معذرت کرلی

یو این آئی

تہران: ایران کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ زیر حراست طلبہ کو رہا کیا جائے اور نئی نظر بندیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد ایران کے کئی شہروں میں شروع ہونے والے مظاہرے ایک ماہ سے جاری ہیں۔Protests in Iran

اسلامک انسٹی ٹیوشنز سٹوڈنٹس یونین کے ٹیلی گرام پیج پر شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے طلباء نے حکومتی ترجمان کے یونیورسٹی کے دورے کے دوران احتجاج کیا۔طلباء نے دعویٰ کیا کہ جب یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس کے سامنے خصوصی دستے اور منی بسیں موجود تھیں، رضاکار ملیشیا فورس بیسک کے دستوں اور نے یونیورسٹی طلباء کی درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی تصاویر میں مازندران یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے بھی مظاہرہ کیے جانے کو دیکھا جاسکتا ہے۔مظاہرین نعرے لگا رہے تھے ''ہمیں ملٹری یونیورسٹی نہیں چاہیے'' اور جب ہم سچ بولتے ہیں تو ہم پر حملے کیے جاتے ہیں۔'

13 ستمبر کو دارالحکومت تہران میں 22 سالہ مہسا ایمانی کو اخلاقی پولیس کے دستوں نے حراست میں لیے جانے کے بعد 16 ستمبر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں وہ ہسپتال ہی میں انتقال کر گئیں جس پر عوام غم و غصے میں گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے۔

مظاہرے، جو 17 ستمبر کو ایمینی کے آبائی شہر ساکز میں جنازے کے بعد شروع ہوئے، کئی شہروں میں پھیل گئے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے 24 ستمبر کو اعلان کیا کہ مظاہروں میں سیکورٹی فورسز سمیت 41 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایرانی انسانی حقوق کی سرگرم ایجنسی (HRANA) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 17 ستمبر سے 14 اکتوبر کے درمیان 233 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 32 بچے اور 26 سیکیورٹی گارڈز شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Elnaz Rekabi Competes without Hijab ایرانی خاتون ایتھلیٹ نے بغیر حجاب کے ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے پر معذرت کرلی

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.