اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل کے روز صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں بعد میں انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سنایا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں 8 اکتوبر 2022 کو ہونے والے انتخابات کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ انتخابات 20 اپریل سے 15 مئی کے درمیان کرانے کا حکم دیا ہے۔ یہ اعلان جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کے لیے خوشی کی طرح ہے وہیں وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 'آئین اور قانون انتخابات کی تاریخ ملتوی کرنے کا حق نہیں دیتا'۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انتخابی عمل پانچویں مرحلے میں تھا جب الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم سے 13 دن ضائع ہو گئے۔ انتخابات کو 8 اکتوبر تک بڑھانے کا فیصلہ مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس سے قبل 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بعد میں اسے 8 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ
سپریم کورٹ نے 27 مارچ سے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت شروع کی۔ 3 اپریل کو اس نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلہ 4 اپریل کو سنایا جائے گا۔ فیصلے سے قبل وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں فوج کی جانب سے الیکشن کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کو ملتوی کرنے کی وجہ بتائی گئی۔ آٹھ روز تک دونوں جانب سے دلائل پیش کیے گئے۔
مارشل لاء کا خطرہ
دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے فل کورٹ کی تشکیل نہ ہونے کی صورت میں ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگانے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلاول نے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ دی نیوز نے بلاول بھٹو کے حوالے سے بتایا کہ ان کی پارٹی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے انتخابات پر تین ججوں کے کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت فل کورٹ کے فیصلے کو قبول کرے گی اور اس پر عمل درآمد بھی کرے گی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ تین ججوں کے فیصلے کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان میں سے ایک نے پی ڈی ایم پنجاب حکومت کو اپوزیشن پی ٹی آئی کے حوالے کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے احتجاج کا انتباہ دیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ 'اگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بعد 90 دنوں کے اندر انتخابات اگر نہ کرائے گئے تو ان کی پارٹی اور وہ ملک گیر احتجاج شروع کر دیں گے۔ لاہور میں سابق وزیر اعظم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبوں میں نگران حکومتوں کو غیر جانبدار کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس بات پر زور دے کر کہا تھا کہ ان کی پارٹی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات آئین کی شقوں کے مطابق ہوں گے یا نہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ 5 رکنی بنچ ہو یا فُل کورٹ، ہمیں اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انتخابات قانون میں فراہم کردہ مدت (90روز) کے دوران ہورہے ہیں یا نہیں؟ عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کو معاشی تباہی اور سیاسی دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ صرف اور صرف صاف وشفاف انتخابات ہیں۔