ETV Bharat / international

Pak SC on Punjab CM Elections: پاکستان میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا

author img

By

Published : Jul 23, 2022, 4:36 PM IST

گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب Punjab CM Elections کے دوران ڈپٹی اسپکر کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو بھی طلب کرلیا ہے۔ Pak SC on Punjab CM Elections

Pak SC summons Punjab Assembly Deputy Speaker ruling in CM elections
پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، ڈپٹی اسپیکر کورٹ میں طلب

اسلام آباد: پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیاسی رسہ کشی کے درمیان پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب Punjab CM Elections کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی کی درخواست پر تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ وہیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد نے‎ مشترکہ و متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت فل کورٹ کرے۔Pak SC on Punjab CM Elections

گزشتہ روز وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپکر کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کرائی جانے والی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

پاکستان کی میڈیا رپورٹ کے مطابق پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعلی کا انتخاب ہوا، حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الٰہی نے 186ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کردیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے چودھری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ق) کے ووٹ مسترد کیے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ طلب کر لیا۔

پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے حلف لے لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا، ہمیں آئین اور قانون کی بات کرنی ہے، آپ لوگ بھی ذرا صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔عدالت نے حمزہ شہباز اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Hamza Shahbaz takes Oath: پاکستان: حمزہ نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا

Pakistan Punjab Bypolls: ضمنی انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کی شاندار جیت

واضح رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الٰہی کو 186 ووٹ ملے تھے۔ تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو آخری وقت پر حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات کیا قانونی طور پر درست تھیں؟ خاص طور پر جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-اے آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کے بنیادی حق کا نفاذ کرتا ہے، اس لیے اس کی تشریح اور اطلاق وسیع بنیاد پر بنیادی حقوق کے ساتھ کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ایوان میں ایک پارلیمانی پارٹی کا کسی بھی رکن کا ووٹ آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق ایک کے پیرا بی کے تحت اول الذکر کی جاری کردہ کسی ہدایت کے خلاف دیا جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ پارٹی سربراہ انحراف کی وجہ بننے والے ووٹ کے بعد کارروائی کرے یا نہ کرے۔آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ (یو این آئی)

اسلام آباد: پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیاسی رسہ کشی کے درمیان پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب Punjab CM Elections کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی کی درخواست پر تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ وہیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد نے‎ مشترکہ و متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت فل کورٹ کرے۔Pak SC on Punjab CM Elections

گزشتہ روز وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپکر کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کرائی جانے والی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

پاکستان کی میڈیا رپورٹ کے مطابق پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعلی کا انتخاب ہوا، حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الٰہی نے 186ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کردیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے چودھری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ق) کے ووٹ مسترد کیے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ طلب کر لیا۔

پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے حلف لے لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا، ہمیں آئین اور قانون کی بات کرنی ہے، آپ لوگ بھی ذرا صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔عدالت نے حمزہ شہباز اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Hamza Shahbaz takes Oath: پاکستان: حمزہ نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا

Pakistan Punjab Bypolls: ضمنی انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کی شاندار جیت

واضح رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الٰہی کو 186 ووٹ ملے تھے۔ تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو آخری وقت پر حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات کیا قانونی طور پر درست تھیں؟ خاص طور پر جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-اے آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کے بنیادی حق کا نفاذ کرتا ہے، اس لیے اس کی تشریح اور اطلاق وسیع بنیاد پر بنیادی حقوق کے ساتھ کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ایوان میں ایک پارلیمانی پارٹی کا کسی بھی رکن کا ووٹ آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق ایک کے پیرا بی کے تحت اول الذکر کی جاری کردہ کسی ہدایت کے خلاف دیا جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ پارٹی سربراہ انحراف کی وجہ بننے والے ووٹ کے بعد کارروائی کرے یا نہ کرے۔آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ (یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.