کابل: افغانستان میں موجودہ پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں تعلیم نسواں اور این جی اوز میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ او آئی سی نے این جی اوز اور تعلیم کے حصول میں خواتین پر پابندی کو اسلامی قانون کے مقاصد اور اللہ کے رسول کے طریقہ کار کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ بیان او آئی سی کی جانب سے افغانستان میں حالیہ پیشرفت اور انسانی صورتحال کے موضوع پر او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے اعلامیے میں جاری کیا گیا ہے۔
57 رکنی ریاستی گروپ او آئی سی نے افغانستان میں انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور امارت اسلامیہ سے خواتین اور بچوں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل کے ایک بیان میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم نے زور دیا تھا کہ او آئی سی افغانستان میں حالیہ واقعات کی پیش رفت پر گہری تشویش کے ساتھ نگرانی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے خصوصی ایلچی کے ذریعے ڈی فیکٹو اتھارٹی کو پیغامات پہنچائے ہیں، جس میں ہم نے اسلام کی ٹھوس اور واضح بنیادوں کی روشنی میں لڑکیوں کے لیے اسکول کھولنے اور حکومت کے اپنے سابقہ وعدوں کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ او آئی سی کی ایگزیکٹیو کمیٹی اس حوالے سے افغانستان کے لیے دوسری مرتبہ علمائے کرام کا ایک وفد بھی روانہ کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
Taliban govt On Female Employee طالبان نے این جی او کو خواتین ملازمین پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا
Taliban Ban Women from Universities خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر طالبان کی پابندی قابل مذمت اور مایوس کن
واضح رہے کہ یہ اجلاس ترکیہ کی کوشش سے منعقد کیا گیا تھا، ترکیہ کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے خطے کی صورتحال پر غور کے لیے انڈونیشیا ،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور قطری ہم منصبوں سے بات چیت کی تھی۔ افغانستان کی صورت حال پر اگلا وزرائے خارجہ کونسل کا 49 واں اجلاس موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشوط میں سولہ تا سترہ مارچ کے درمیان ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس 24 دسمبر کو طالبان نے ایک حکم نامہ جاری کرکے خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس سے پہلے طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم اور لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکولنگ کو اپنے آئندہ احکامات تک معطل کر دیا تھا۔ اس ماہ ایک پریس بیان میں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ٹور نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسی پالیسیوں کو منسوخ کریں جو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو نشانہ بناتی ہیں۔