نیو یارک: امریکہ کی ریاست نیو یارک نے انسانی لاشوں سے کھاد بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ انتقال کے بعد کسی انسانی جسم کے کھاد میں تبدیلی کے عمل کو ’قدرتی نامیاتی تخفیف ‘ سے جانا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران لاشوں کو لکڑی کے ٹکڑوں اور گھانس پھونس کے ساتھ تقریباً کم ازکم ایک ماہ تک کنٹینروں میں بند رکھا جاتا ہے۔ کھاد کی تیاری کے لیے بند ماحول میں جراثیم کی فعالیت کے ساتھ ایک مہینے بعد لاشیں کھاد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس عمل کے بعد کسی قسم کے متعدی کی روک تھام کے لیے کھاد کو گرم کیا جاتا ہے اور تیار ہونے والی مٹّی مرنے والے کے لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے جو پودوں، درختوں اور سبزیاں اگانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ Composting of Human Bodies
ترکیہ میڈیا کے مطابق امریکی کمپنی 'ری کمپوز' کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے، تابوت کے ساتھ دفن کرنے یا پھر جلانے کے مقابلے میں، تقریباً ایک ٹن کم کاربن خارج ہوتی ہے۔ دوسری طرف بعض کا خیال ہے کہ لاشوں سے حاصل کردہ مٹّی نے نسلی مسائل پیدا کیے ہیں۔ نیویارک کے کیتھولک راہبوں نے اس طریقے کی مخالفت کی اور کہا ہے کہ انسانوں کو گھروں کے کوڑا کرکٹ میں تبدیل کرنا غیر اخلاقی ہے اور کچھ کے نزدیک 7 ہزار ڈالر مصارف کے ساتھ یہ ایک مہنگا طریقہ ہے۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ ہیومن کمپوسٹنگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل نہ صرف زیادہ ماحول دوست آپشن ہے بلکہ ان شہروں میں بھی زیادہ عملی ہے جہاں قبرستانوں کے لیے جگہ محدود ہے۔ واضح رہے کہ واشنگٹن 2019 میں اس عمل کو قانونی حیثیت دینے والی پہلی امریکی ریاست تھی جبکہ نیویارک چھٹا امریکی ریاست بن گیا ہے، اس سے قبل کولوراڈو، اوریگون، ورمونٹ اور کیلیفورنیا میں بھی اس کی اجازت دی جاچکی ہے۔