لندن: بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے 'سیو دی چلڈرن' نے جمعرات 10 نومبر کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شمال مشرقی شام میں 16,000 سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جو کہ صرف چھ ماہ میں 150 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے۔ 2011 کے بعد سے جاری تنازع نے پورے شام میں بنیادی خدمات کا نظام درہم برہم کر دیا ہے، لیکن حکومت کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں صورتحال زیادہ نازک دکھائی دیتی ہے، خاص طور پر جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کی وجہ سے بچی غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔More than 16,000 children malnourished In Syria
سیو دی چلڈرن تنظیم نے اطلاع دی ہے کہ شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد اکتوبر اور مارچ 2022 کے درمیان 6,650 سے بڑھ کر اپریل اور ستمبر (ستمبر 2022) کے درمیان 16,895 ہو گئی۔ تنظیم کی نیوٹریشن آفیسر سارہ علی نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہر روز ہم پچھلے دن سے زیادہ غذائی قلت کا شکار بچوں کو دیکھ رہے ہیں، جس سے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔' سارہ علی نے ایک بیان میں کہا کہ خاندان غربت اور قوت خرید نہ رکھنے کی وجہ سے بچوں کا پیٹ پالنے سے قاصر ہیں۔غذائیت کی کمی کے واقعات میں اضافے کے پیچھے یہ دو اہم وجوہات ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق شام کے باشندوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 12.4 ملین افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک میں مہنگائی اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق اگرچہ شام میں خاندانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آئی، خوراک کی قیمتوں میں 2019 اور 2021 کے درمیان 800 فیصد اضافہ ہوا۔
یو این آئی