بھارتی وزارت خارجہ نے امریکہ کی سیاہ فام مسلم سینیٹر الہان عمر کے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے دورے پر اعتراض جتایا ہے۔ الہان عمر ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔MEA on US Senator Visit to POK
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ وہ (الہان عمر) جموں و کشمیر کے ایک حصے کا دورہ کرچکی ہیں جو اس وقت پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ اگر اس طرح کی سیاست دان اپنے گھر میں اپنی تنگ نظر سیاست چلاتی ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے لیکن اس کام کیلئے وہ اگر ہماری علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہ قابل مذمت ہے۔
واضح رہے کہ الہان عمر امریکا میں سینیٹر منتخب ہونے والی پہلی دو مسلمان خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف مہم چلانے کی وجہ سے کافی سرخیوں میں رہی ہیں۔
الہان عمر Ilhan Omars نے پاکستان پہنچنے کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف اور وزیرمملکت برائے خارجہ سمیت دفترخارجہ کے عہدیداروں او دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں۔وہ بدھ کے روز پاکستان کے دورے پر پہنچی ہیں جہاں وہ 24 اپریل تک وہاں رہیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:
US Congress Woman in Pakistan: امریکی رکن کانگریس کی سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات
امریکی انتخابات: دو مسلم خواتین دوبارہ منتخب
الہان عمر کا بچپنہ کینیا کے پناہ گزیں کیمپ میں گزرا تھا جہاں ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے پہنچا تھا۔ اس کے بعد وہ کسی اسپانسر کی مدد سے پھر 1997 میں امریکی ریاست منی سوٹا پہنچیں۔ جہاں سے وہ سنہ 2016 میں 36 برس کی عمر میں امریکی ریاست مینی سوٹا سے منتخب ہوئی ہیں اور وہ پہلی صومالی امریکن قانون ساز منتخب ہوگئیں۔ عام انتخابات میں انہوں نے 78 فیصد ووٹ حاصل کئے جو مینی سوٹا کی تاریخ میں کسی بھی خاتون امیدوار کی سب سے بڑی جیت ہے۔ انہیں انکے دادا کے دئے ہوئے قرآن پر حلف دلایا گیا۔ گذشتہ برس الہان عمر نے امریکی کانگریس میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک بل بھی پیش کیا تھا جسے منظور کیا گیا تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس بل کی حمایت کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ الہام عمر نے اس ماہ کے اوائل میں امریکی سینیٹ میں بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ ظلم و تشدد کا معاملہ اٹھاکر امریکی حکومت کی طرف سے احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ الہان عمر شروع سے ہی امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، نسلی تعصب اور اسلاموفوبیا سے لے کر فلسطین اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ 5 اگست 2019 میں کشمیر میں آرٹیکل 370 ک منسوخی کے بعد ریاست میں لگائے گئے کرفیو اور سوشل میڈیا پر پابندی کے دوران الہان عمر نے اپنے ایک ٹویٹ میں ان پابندیوں کو فورا ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے کشمیر میں انسانی حقوق، جمہوری اصولوں اور مذہبی آزادی کا احترام کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’وہاں کیا ہو رہا ہے، بین الاقوامی تنظیموں کو اس کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘