ETV Bharat / international

Jewish Prayer at Al Aqsa Mosque: مسجد الاقصیٰ میں یہودیوں کی عبادت پر پابندی برقرار، اسرائیلی عدالت کا فیصلہ

اسرائیلی کورٹ کے جج اینات آومان مولر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ماونٹ ٹیمپل کی خصوصی حیثیت و اہمیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا جسے مسلمان ایک مقدس مقام کے طور پر مسجد اقصیٰ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں یہودیوں کو عبادت کی آزادی کا مطلق حق حاصل نہیں ہے اور یہودی عبادت کو دوسرے مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے، جن میں امن عامہ کا تحفظ بھی شامل ہے۔ upholds ban on Jewish prayer at Al Aqsa Mosque

Israeli court upholds ban on Jewish prayer at Al Aqsa Mosque
اسرائیلی عدالت کا مسجد الاقصیٰ میں یہودیوں کی عبادت پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ
author img

By

Published : May 26, 2022, 10:30 PM IST

اسرائیل کی اپیل کورٹ نے مجسٹریٹ عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں طویل عرصے سے یہودیوں کی عبادت پر پابندی کی قانونی بنیاد پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ جس نے فلسطینیوں کے غصے کو بھڑکا دیا تھا جبکہ اس دوران امریکا نے اپنے شہریوں کو اس علاقے میں آمد و رفت سے متعلق خبردار کیا تھا۔ Jewish Prayer at Al Aqsa Mosque

اس ہفتے کے اوائل میں، ایک مجسٹریٹ عدالت نے تین یہودیوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، جن پر پولیس نے اس مقام پر نماز ادا کرنے پر 15 دنوں کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اتوار کو پابندی کو ہٹاتے ہوئے، مجسٹریٹ عدالت کے جج زیون صحرائی نے کہا کہ اگرچہ ان کا سائٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن تینوں اپیل کنندگان کے طرز عمل سے قومی سلامتی، عوامی تحفظ یا انفرادی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

مجسٹریٹ کے فیصلے کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے عہد کیا گیا کہ علاقے کی معاہدہ شدہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اتوار کے فیصلے کو تاریخی جمود کے خلاف ایک سنگین حملہ اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک کھلا چیلنج قرار دیا۔

ریاست نے گزشتہ روز بیت المقدس ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک جوابی اپیل دائر کی جس پر ریاست کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔ جج اینات آومان مولر نے اپنے فیصلے میں مسجد اقصیٰ کے احاطے کے لیے عبرانی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کی خصوصی حیثیت و اہمیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا جسے مسلمان ایک مقدس مقام کے طور پر مسجد اقصیٰ کے نام سے جانتے ہیں۔ جج نے کہا کہ وہاں یہودیوں کو عبادت کی آزادی کا 'مطلق' حق حاصل نہیں ہے اور یہودی عبادت کو دوسرے مفادات سے بالاتر ہونا چاہئے، جن میں امن عامہ کا تحفظ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی، عالمی برادری کی مذمت

قابل ذکر ہے کہ مسجد الاقصیٰ کا کمپاؤنڈ تاریخی قدیم شہر کے اندر واقع ہے۔ عالمی برادری کی اکثریت مشرقی یروشلم پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتی اور اسے غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقہ سمجھتی ہے۔ یہ کمپاؤنڈ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے ۔ 1967 سے طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق غیر مسلموں کو وزٹ کرنے کے اوقات میں سائٹ پر جانے کی اجازت ہے، لیکن انہیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اسرائیل کی اپیل کورٹ نے مجسٹریٹ عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں طویل عرصے سے یہودیوں کی عبادت پر پابندی کی قانونی بنیاد پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ جس نے فلسطینیوں کے غصے کو بھڑکا دیا تھا جبکہ اس دوران امریکا نے اپنے شہریوں کو اس علاقے میں آمد و رفت سے متعلق خبردار کیا تھا۔ Jewish Prayer at Al Aqsa Mosque

اس ہفتے کے اوائل میں، ایک مجسٹریٹ عدالت نے تین یہودیوں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، جن پر پولیس نے اس مقام پر نماز ادا کرنے پر 15 دنوں کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اتوار کو پابندی کو ہٹاتے ہوئے، مجسٹریٹ عدالت کے جج زیون صحرائی نے کہا کہ اگرچہ ان کا سائٹ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن تینوں اپیل کنندگان کے طرز عمل سے قومی سلامتی، عوامی تحفظ یا انفرادی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

مجسٹریٹ کے فیصلے کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے عہد کیا گیا کہ علاقے کی معاہدہ شدہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اتوار کے فیصلے کو تاریخی جمود کے خلاف ایک سنگین حملہ اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک کھلا چیلنج قرار دیا۔

ریاست نے گزشتہ روز بیت المقدس ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک جوابی اپیل دائر کی جس پر ریاست کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔ جج اینات آومان مولر نے اپنے فیصلے میں مسجد اقصیٰ کے احاطے کے لیے عبرانی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کی خصوصی حیثیت و اہمیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا جسے مسلمان ایک مقدس مقام کے طور پر مسجد اقصیٰ کے نام سے جانتے ہیں۔ جج نے کہا کہ وہاں یہودیوں کو عبادت کی آزادی کا 'مطلق' حق حاصل نہیں ہے اور یہودی عبادت کو دوسرے مفادات سے بالاتر ہونا چاہئے، جن میں امن عامہ کا تحفظ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی، عالمی برادری کی مذمت

قابل ذکر ہے کہ مسجد الاقصیٰ کا کمپاؤنڈ تاریخی قدیم شہر کے اندر واقع ہے۔ عالمی برادری کی اکثریت مشرقی یروشلم پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتی اور اسے غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقہ سمجھتی ہے۔ یہ کمپاؤنڈ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے ۔ 1967 سے طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق غیر مسلموں کو وزٹ کرنے کے اوقات میں سائٹ پر جانے کی اجازت ہے، لیکن انہیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.