غزہ: غزہ میں جنگ معاہدہ جاری ہے لیکن اسرائیل نے اپنی فلسطین مخالف جارحیت کو غزہ سے مغربی کنارہ منتقل کر دیا ہے۔ غزہ میں بچی کھچی آبادی راحت کی سانس لے رہی ہے لیکن مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر دھاوا بول دیا ہے۔
- یہ کیسی جنگ بندی؟
غزہ کی پٹی میں اعلان کردہ مختصر جنگ بندی کے باوجود مغربی کنارے میں اسرائیلی چھاپے اور فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں یرغمالیوں کے بدلے میں چند درجن فلسطینیوں کو رہا کیا ہے مگر دوسری طرف اسرائیلی فوج نے غرب اردن سے حالیہ چند دنوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران اور اسیران کلب نے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 7 اکتوبر سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے شروع کی گئی گرفتاری مہم کی تعداد 3,200 سے زیادہ فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوانوں کو ان کے گھروں سے یا اسرائیلی چوکیوں سے اٹھایا گیا۔
منگل کے روز اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں رام اللہ کے مغرب میں واقع بیتونیہ اور کفر عین نامی قصبوں پر دھاوا بول دیا اور دو نوجوانوں کو گولی مار دی جس کے نتیجے میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے بیتونیہ پر دھاوا بول دیا اور عوفر جیل کے آس پاس موجود فلسطینیوں پر اس وقت گولیاں چلائیں جب وہ قیدیوں کی چوتھی کھیپ کی رہائی کے لیے جیل کے قریب جمع تھے۔ اسرائیلی فورسز نے شمالی مغربی کنارے میں قلقیلیہ پر بھی دھاوا بول دیا۔ ایک نوجوان کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ گذشتہ روز بھی اسرائیلی فورسز نے الخلیل کے مشرق میں واقع قصبے بنی نعیم میں چھاپوں اور دراندازی کے واقعات میں 26 افراد کو گرفتار کر لیا۔ غرب اردن میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ 7 اکتوبر سے جاری ہے۔ گذشتہ جمعہ کو حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والی جنگ بندی کے بعد اب تک تقریباً 80 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا ہے جس میں بیشتر اسرائیلی شہری ہیں جب کہ اس دوران 180 فلسطینیوں کی رہائی عمل میں لائی گئی ہے۔
- جنگ بندی کے باوجود امداد کو ترس رہے فلسطینی:
جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر امداد کی رسائی سے متعلق اسرائیل بڑے بڑے دعوے کر رہا ہے۔ لیکن حیقیت اس کے برخلاف ہے۔ جنگ بندی معاہدہ کے تحت، غزہ میں روزانہ 160 سے 200 ٹرکوں تک امداد کی ترسیل طئے پائی ہے، تاکہ اس سے اشد ضرورت خوراک، پانی اور ادویات کے ساتھ ساتھ گھروں، اسپتالوں اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے لیے ایندھن بھی پہنچانا ہے۔ اگر اسرائیلی دعوے کو قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی، موجودہ ضرورت کے مطابق یہ نصف سے بھی کم امداد ہے جو غزہ لڑائی سے پہلے درآمد کر رہا تھا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی ترجمان جولیٹ ٹوما نے کہا کہ لوگ پناہ گاہوں میں بھاری کپڑے، گدے اور کمبل مانگ رہے ہیں اور کچھ تباہ شدہ گاڑیوں میں سو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ، "ضروریات بہت زیادہ ہیں، کیونکہ انہوں نے سب کچھ کھو دیا ہے، اور انہیں ہر چیز کی ضرورت ہے۔"
- اسرائیل کی جنوبی غزہ پر حملے کی تیاری:
شمالی غزہ میں اسرائیل کی بمباری اور زمینی کارروائیوں نے 1.8 ملین سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا ہے، غزہ کی تقریباً 80 فیصد آبادی، نے جنوبی غزہ میں پناہ لی ہے، اقوام متحدہ کے مطابق لاکھوں لوگ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ زیادہ بھیڑ کی وجہ سے باہر سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ پورے غزہ میں بارش اور ٹھنڈی ہواؤں نے حالات کو مزید دگرگوں بنا دیا ہے۔ ایسے حالات میں اسرائیل اپنی جارحیت کو جنوبی غزہ کی طرف موڑنے پر بضد ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے اور اس کی فوجی صلاحیتوں کو کچلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ابھی تک اس جنگ میں 70 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے جبکہ بنا ثبوت پیش کیے اسرائیل حماس کے سینکڑوں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پہلے اسرائیل نے شمالی غزہ کے باشندوں کو جنوبی غزہ منتقل ہونے کا دباو بنایا اور اب جنوبی غزہ کی طرف پیش قدمی کی بات کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر نے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسرائیل نے اپنی سرحد سیل کر دی ہیں تو ایسے میں اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے تو جنوبی غزہ میں عارضی ٹینٹوں میں پناہ لیے ہوئے فلسطینی کہاں جائیں۔
یہ بھی پڑھیں:رہائی پانے والے اسرائیلیوں نے حماس اور القسام بریگیڈز کے حسن سلوک کی تعریف کی