اسلام آباد: پاکستان کی اٹک جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے توشہ خانہ کیس میں قصورا وار ثابت ہونے اور سزا کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) 22 اگست کو سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈویژنل بنچ عمران خان کی درخواست پر سماعت کرے گی۔
اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے 5 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کو "بدعنوان طرز عمل" کا مجرم پایا اور معاملے میں انہیں تین سال قید کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر خان عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل ہوگئے ہیں۔ عدالت نے تیس صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا تھا کہ ’انہوں نے (عمران) توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کے بارے میں غلط معلومات دیں اور ان کا جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔
سماعت کے موقع پر فیصلے کی توقع میں پولیس پہلے سے ہی تیار تھی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے چند منٹ بعد ہی پولیس حرکت میں آگئی اور خان کو لاہور میں ان کی زمان پارک رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنی سزا کے خلاف اپنے وکیل خواجہ حارث احمد اور بیرسٹر گوہر علی خان کے ذریعے آئی ایچ سی سے رجوع کیا تھا اور آئی ایچ سی سے درخواست کی تھی کہ ان کی اپیل پر حتمی فیصلہ آنے تک ان کی قید کی سزا معطل کی جائے۔
وہیں دوسری جانب پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے سائفر کی گمشدگی کے معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے انسداد دہشتگردی ونگ میں سائفرکی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو نامزد کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ ایف آئی اے کے انسداد دہشتگردی ونگ میں تعینات ڈی آئی جی لیول کے افسران اس معاملے کی انکوائری کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
دوسری جانب سائفر کی گمشدگی کے معاملے پر ایف آئی اے نے گزشتہ روز چیئرمین تحریک انصاف سے تحقیقات کیں۔ ذرائع کا بتانا ہےکہ سائفر گمشدگی پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبران نے اٹک جیل میں عمران خان سے پوچھ گچھ کی۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے آفس میں ملاقات کی گئی ہے۔
خیال رہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔ اعظم خان پی ٹی آئی کے دوران حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)