تہران: ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کیونکہ اس کے اصول اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات "جوہری صنعت کی ترقی" نامی نمائش کا معائنہ کرنے کے دوران کہی۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق خامنہ ای نے مزید کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ایران کے متعلق مغربی ممالک کی دلیل جھوٹ پر مبنی ہے اور مغرب یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا تھا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے لیے جدید سینٹری فیوجز کی تنصیب جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ قابل اجازت حد سے 21 گنا زیادہ ہوگیا ہے۔ ان تین یورپی ملکوں نے ایران کی حالیہ یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ خامنہ ای نے کہا کہ ہم اسلامی تعلیمات کی رو سے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف جانا نہیں چاہتے ورنہ دشمن کی مجال نہیں کہ وہ اسے روکے اور آج تک ہماری ایٹمی ترقی کو نہ کوئی روک سکا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن بیس سال سے ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کو چیلنج کئے ہوئے ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی میں متحرک ہونے سے ملک سائنسی اعتبار سے ترقی کرے گا۔ علی خامنہ ای نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دشمنوں کا ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بہانہ جھوٹ پر مبنی ہے اور وہ خود بھی اسے بخوبی جانتے ہیں کہا کہ رواں سال امریکی حکام نے خود اس حوالے سے کئی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ جمہوری اسلامی ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
یہ بھی پڑھیں:
- ایران کو جوہری اسلحہ بنانے کی اجازت نہیں ملے گی، امریکی وزیر خارجہ
- ترکیہ اور ایران نے اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد کی اپیل کی
ایرانی سپریم لیڈر نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو معیشت اور صحت کے شعبوں سمیت ملکی ترقی اور صلاحیتوں کو نکھارنے کے لحاظ سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بننے والے کسی بھی ہتھیار بنانے کے حامی نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کی جانب بڑھ بھی جائیں تو صرف اسلامی جمہوریہ ایران پہلا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے والا ملک نہیں ہوگا کیونکہ بہت سے ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں۔ دشمن کو اصل مسئلہ اسلامی جمہوریہ ایران کی علمی اور سائنسی طاقت سے ہے۔ (یو این آئی)