ETV Bharat / international

Iranian Couple Jailed Over Dancing ایرانی جوڑے کو عوامی مقام کے سامنے رقص کرنے پر 10 سال کی قید

ایرانی عدالت نے ایک جوڑے کو تہران کے اہم مقامت پر رقص کرنے پر 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے اور ایران چھوڑنے پر بھی پابندی لگائی ہے۔

author img

By

Published : Feb 1, 2023, 3:32 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

پیرس: ایران کی ایک عدالت نے تہران کے اہم مقامات میں سے ایک آزادی ٹاور کے سامنے رقص کرنے پر ایک جوڑے کو 10 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے منگل کو یہ اطلاع دی۔ اخبار 'ڈان' کے مطابق گزشتہ نومبر کے اوائل میں آزادی ٹاور کے سامنے رومانوی رقص کرتے ہوئے ان کا ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد استیاز ہاغی اور ان کے منگیتر امیر محمد احمدی (دونوں کی عمریں 20 سال ہیں) کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ہاغی نے خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سر پر دوپٹہ تک نہیں پہنا تھا، ساتھ ہی ایران میں خواتین کو سرعام رقص کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی (ایچ آر اے این اے) نے کہا کہ تہران میں ریولیوشنری گارڈ کی عدالت نے انہیں 10 سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ساتھ ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے اور ایران چھوڑنے پر بھی پابندی لگا دی۔ پہلے سے ہی تہران میں مشہور انسٹاگرام بلاگرز کے طور پر موجود ان دونوں کو "بدعنوانی اور عوامی جسم فروشی کی حوصلہ افزائی" کے ساتھ ساتھ 'قومی سلامتی میں خلل ڈالنے کے ارادے سے جمع ہونے' کا قصوروار ٹھہرایا دیا گیا ہے۔ ایچ آر اے این اے نے ان کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران انہیں وکلاء سے محروم رکھا گیا اور ضمانت پر ان کی رہائی کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ہاغی اب تہران سے باہر خواتین کے لیے بدنام زمانہ کرچک جیل میں ہے۔ کارکن اس جیل کے حالات پر باقاعدگی سے تنقید کرتے رہتے ہیں۔

ایرانی حکام نے ستمبر میں مہسا امینی کی موت کے بعد سے ہر قسم کے احتجاج کے خلاف سخت حملہ کیا ہے، جسے مبینہ طور پر 'ہیڈ اسکارف' کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج ہوا جو بعد میں تحریک میں بدل گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس عرصے کے دوران کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں اہم شخصیات، صحافیوں اور وکلاء سے لے کر سڑکوں پر نکلنے والے عام افراد شامل ہیں۔ اس جوڑے کی ویڈیو کو حکومت مخالف مظاہرین کی طرف سے مانگی گئی آزادی کی علامت کے طور پر سراہا گیا۔ ویڈیو میں احمدی نے ایک لمحے میں اپنی ساتھی کو ہوا میں اٹھا لیا اور اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔

ایرانی دارالحکومت کی اہم علامتوں میں سے ایک آزادی ٹاور ایک بہت بڑا اور مستقبل کی آزادی (آزادی) اور حساس جگہ ہے۔ اسے 1970 کی دہائی کے اوائل میں آخری شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں کھولا گیا تھا، جب سے اسے شہید (شاہ کی یاد میں) ٹاور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ساتھ 1979 میں شاہ کو معزول کرنے کے بعد اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے معمار، بہائی عقیدے کے ارکان، جنہیں موجودہ ایران میں تسلیم نہیں کیا جاتا، اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Iran Sentences Ex Official to Death ایران میں سابق اہلکار کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت

یو این آئی

پیرس: ایران کی ایک عدالت نے تہران کے اہم مقامات میں سے ایک آزادی ٹاور کے سامنے رقص کرنے پر ایک جوڑے کو 10 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے منگل کو یہ اطلاع دی۔ اخبار 'ڈان' کے مطابق گزشتہ نومبر کے اوائل میں آزادی ٹاور کے سامنے رومانوی رقص کرتے ہوئے ان کا ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد استیاز ہاغی اور ان کے منگیتر امیر محمد احمدی (دونوں کی عمریں 20 سال ہیں) کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ہاغی نے خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سر پر دوپٹہ تک نہیں پہنا تھا، ساتھ ہی ایران میں خواتین کو سرعام رقص کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی (ایچ آر اے این اے) نے کہا کہ تہران میں ریولیوشنری گارڈ کی عدالت نے انہیں 10 سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ساتھ ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے اور ایران چھوڑنے پر بھی پابندی لگا دی۔ پہلے سے ہی تہران میں مشہور انسٹاگرام بلاگرز کے طور پر موجود ان دونوں کو "بدعنوانی اور عوامی جسم فروشی کی حوصلہ افزائی" کے ساتھ ساتھ 'قومی سلامتی میں خلل ڈالنے کے ارادے سے جمع ہونے' کا قصوروار ٹھہرایا دیا گیا ہے۔ ایچ آر اے این اے نے ان کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران انہیں وکلاء سے محروم رکھا گیا اور ضمانت پر ان کی رہائی کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ہاغی اب تہران سے باہر خواتین کے لیے بدنام زمانہ کرچک جیل میں ہے۔ کارکن اس جیل کے حالات پر باقاعدگی سے تنقید کرتے رہتے ہیں۔

ایرانی حکام نے ستمبر میں مہسا امینی کی موت کے بعد سے ہر قسم کے احتجاج کے خلاف سخت حملہ کیا ہے، جسے مبینہ طور پر 'ہیڈ اسکارف' کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج ہوا جو بعد میں تحریک میں بدل گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس عرصے کے دوران کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں اہم شخصیات، صحافیوں اور وکلاء سے لے کر سڑکوں پر نکلنے والے عام افراد شامل ہیں۔ اس جوڑے کی ویڈیو کو حکومت مخالف مظاہرین کی طرف سے مانگی گئی آزادی کی علامت کے طور پر سراہا گیا۔ ویڈیو میں احمدی نے ایک لمحے میں اپنی ساتھی کو ہوا میں اٹھا لیا اور اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔

ایرانی دارالحکومت کی اہم علامتوں میں سے ایک آزادی ٹاور ایک بہت بڑا اور مستقبل کی آزادی (آزادی) اور حساس جگہ ہے۔ اسے 1970 کی دہائی کے اوائل میں آخری شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں کھولا گیا تھا، جب سے اسے شہید (شاہ کی یاد میں) ٹاور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ساتھ 1979 میں شاہ کو معزول کرنے کے بعد اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے معمار، بہائی عقیدے کے ارکان، جنہیں موجودہ ایران میں تسلیم نہیں کیا جاتا، اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Iran Sentences Ex Official to Death ایران میں سابق اہلکار کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.