تہران: ایران میں ستمبر کے وسط میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے اور گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں نے ایران کی حکومت کو متزلزل کر دیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لیے اب تک ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ سو سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ Iran protests
ان مظاہروں کے خلاف پہلی مرتبہ سخت قدم اٹھاتے ہوئے اتوار کے روز ایران کی ایک عدالت نے مظاہروں میں ملوث ایک شخص کو سزائے موت سنائی ہے اور کئی دیگر افراد کو قید کی سزا سنائی ہے۔ ایرانی عدلیہ نے اتوار کو کہا کہ ایک نامعلوم شخص کو محاربہ (خدا کے خلاف جنگ) کے علاوہ حکومتی مرکز کو آگ لگانے، امن عامہ کو خراب کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ پانچ مزید نامعلوم افراد، جنہیں حکام نے فساد پرست کے طور پر بیان کیا ہے، کو قومی سلامتی سے متعلق الزامات میں پانچ سے 10 سال کے درمیان قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Iran Protests ایرانی لِبرل پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، حکومت کے لیے تشویشناک صورتحال
عدلیہ نے پہلے کہا تھا کہ صرف تہران میں 1,000 سے زیادہ فرد جرم عائد کی گئی ہے، جبکہ ملک بھر میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مظاہروں سے متعلق پہلی عوامی عدالتیں اکتوبر کے آخر میں تہران میں لگائی گئیں، سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے سرکردہ ارکان نے فساد کرنے والوں کو سزا دینے اور مزید احتجاج کو روکنے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے، ایران کی پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت نے عدلیہ سے بھی مطالبہ کیا کہ ان جرائم کے مرتکب مظاہروں اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جنہوں نے جرائم میں مدد کی اور فسادیوں کو اکسایا، کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹا جائے۔