ETV Bharat / international

Indus Water Treaty سندھ آبی معاہدے میں ترمیم کے لیے بھارت نے پاکستان کو نوٹس دیا

بھارت اور پاکستان نے نو برس کی بات چیت کے بعد ستمبر سن 1960 میں سندھ آبی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی اقدامات سے معاہدے کی دفعات متاثر ہورہی ہے، اسی لیے مجبوراً ہمیں معاہدے میں ترمیم کے سلسلے میں پاکستان کو نوٹس بھیجنا پڑا ہے۔

India issues notice to Pakistan seeking modification to Indus Water Treaty agreement
سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے لیے بھارت نے پاکستان کو نوٹس دیا
author img

By

Published : Jan 27, 2023, 5:54 PM IST

Updated : Jan 27, 2023, 7:37 PM IST

نئی دہلی: بھارت نے آبی تنازعے سے متعلق 62 سال پرانے سندھ آبی معاہدے کے ترمیم کے سلسلے میں پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے رویے اور عالمی بینک کے ذریعے دفعات کے خلاف وری سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے بھارت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ستمبر 1960 میں دستخط شدہ اس معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے 25 جنوری کو بھارتی کمشنر نے پاکستانی ہم منصب کو اس معاہدے کے آرٹیکل 7 (3) کے تحت نوٹس بھیجا ہے۔

بھارت اور پاکستان نے نو برس کی بات چیت کے بعد ستمبر سن 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا ایک فریق عالمی بینک بھی ہے اور اس کے بھی اس معاہدے پر دستخط ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو درست کرنے کے لیے 90 دنوں کے اندر بین الحکومتی مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس عمل میں گزشتہ 62 برسوں میں ہونے والے تجربوں اور اسباق کو معاہدے میں جگہ دینا ہے۔

ذرائع کے مطابق بھارت سندھ آبی معاہدے کے اس کی مکمل روح کے ساتھ عمل درآمد کا ہمیشہ ذمہ دار پارٹنر اور مستقل حامی رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان کا طرز عمل اور سرگرمیاں معاہدے کی دفعات کے برعکس رہی ہیں اور اس نے بھارت کو معاہدے میں ترمیم کے لیے ایک مناسب نوٹس جاری کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے سال 2015 میں بھارت کی کشن گنگا اور راتلے بجلی منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات کی تحقیقات کے لیے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کی تھی۔

سال 2016 میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر اپنے درخواست سے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے اعتراض کو مسترد کرنے کے لیے ایک ٹربیونل کے ذریعے ثالثی کرانے کا پیشکش لے کر آیا۔ پاکستان کی یہ یکطرفہ کارروائی معاہدے کے آرٹیکل 9 میں تنازعات کے حل کے بیان کردہ طریقہ کار کے خلاف تھی۔ لیکن بھارت نے اسی نظام کے بیان کردہ دفعات کے مطابق اس معاملے کے سلسلے میں ایک غیر جانبدار ماہر سے درخواست کی۔ ذرائع نے کہا کہ ایک ہی سوالات پر دو متوازی عمل شروع کرنے اور اسے لے کر دونوں پراسیس میں الگ الگ یا متضاد فیصلے آنے کے امکان سے ایک غیر معمولی اور قانونی طور پر عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس سے سندھ آبی معاہدے کی مطابقت کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔

عالمی بینک نے 2016 میں ہی اس حالت کو سمجھ لیا تھا اور دونوں متوازی عمل کو معطل کرنے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان پر باہمی طور پر قابل قبول نتیجے پر پہنچنے کی درخواست کی تھی۔ ذرائع نے کہا کہ بھارت کے ذریعے باہمی طور رضامندی سے آگے کا راستہ نکالنے کے لئے مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان نے سال 2017 سے 2022 کے درمیان پانچ میٹنگوں میں اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتا رہا۔ پاکستان کے اس رویے سے عالمی بینک نے حال ہی میں دونوں طریقہ کار (غیر جانبدار ماہر کے ساتھ ثالثی اور ٹریبونل) پر کارروائی شروع کر دی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سندھ آبی معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون ملک اور کیسے استعمال کرے گا۔ ان چھ میں سے تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ باقی تین بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب دریا کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ دریائے راوی، بیاس اور ستلج دریا کے پانیوں پر بھارت کا حق ہے۔

لیکن اس معاہدے کے تحت بھارت سندھ، جہلم اور چناب دریا کا پانی بھی استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے اور بھارت کو ان دریاؤں پر بجلی گھر بنانے کی بھی اجازت ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ ان کے پانی کا بہاؤ ایک مقرر حد سے کم نہ ہونے پائے۔ قابل ذکر ہے کہ کشن کنگا جو کہ جہلم کا ہی ایک معاون دریا ہے۔ بھارت نے اسی دریا پر لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ایک بجلی گھر بنایا ہے، جسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کہتے ہیں اور اسی پر دونوں ملکوں کے خلاف شدید تنازعات ہیں۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)

نئی دہلی: بھارت نے آبی تنازعے سے متعلق 62 سال پرانے سندھ آبی معاہدے کے ترمیم کے سلسلے میں پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے رویے اور عالمی بینک کے ذریعے دفعات کے خلاف وری سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے بھارت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ستمبر 1960 میں دستخط شدہ اس معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے 25 جنوری کو بھارتی کمشنر نے پاکستانی ہم منصب کو اس معاہدے کے آرٹیکل 7 (3) کے تحت نوٹس بھیجا ہے۔

بھارت اور پاکستان نے نو برس کی بات چیت کے بعد ستمبر سن 1960 میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا ایک فریق عالمی بینک بھی ہے اور اس کے بھی اس معاہدے پر دستخط ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو درست کرنے کے لیے 90 دنوں کے اندر بین الحکومتی مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس عمل میں گزشتہ 62 برسوں میں ہونے والے تجربوں اور اسباق کو معاہدے میں جگہ دینا ہے۔

ذرائع کے مطابق بھارت سندھ آبی معاہدے کے اس کی مکمل روح کے ساتھ عمل درآمد کا ہمیشہ ذمہ دار پارٹنر اور مستقل حامی رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان کا طرز عمل اور سرگرمیاں معاہدے کی دفعات کے برعکس رہی ہیں اور اس نے بھارت کو معاہدے میں ترمیم کے لیے ایک مناسب نوٹس جاری کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے سال 2015 میں بھارت کی کشن گنگا اور راتلے بجلی منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات کی تحقیقات کے لیے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کی تھی۔

سال 2016 میں پاکستان نے یکطرفہ طور پر اپنے درخواست سے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے اعتراض کو مسترد کرنے کے لیے ایک ٹربیونل کے ذریعے ثالثی کرانے کا پیشکش لے کر آیا۔ پاکستان کی یہ یکطرفہ کارروائی معاہدے کے آرٹیکل 9 میں تنازعات کے حل کے بیان کردہ طریقہ کار کے خلاف تھی۔ لیکن بھارت نے اسی نظام کے بیان کردہ دفعات کے مطابق اس معاملے کے سلسلے میں ایک غیر جانبدار ماہر سے درخواست کی۔ ذرائع نے کہا کہ ایک ہی سوالات پر دو متوازی عمل شروع کرنے اور اسے لے کر دونوں پراسیس میں الگ الگ یا متضاد فیصلے آنے کے امکان سے ایک غیر معمولی اور قانونی طور پر عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس سے سندھ آبی معاہدے کی مطابقت کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔

عالمی بینک نے 2016 میں ہی اس حالت کو سمجھ لیا تھا اور دونوں متوازی عمل کو معطل کرنے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان پر باہمی طور پر قابل قبول نتیجے پر پہنچنے کی درخواست کی تھی۔ ذرائع نے کہا کہ بھارت کے ذریعے باہمی طور رضامندی سے آگے کا راستہ نکالنے کے لئے مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان نے سال 2017 سے 2022 کے درمیان پانچ میٹنگوں میں اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتا رہا۔ پاکستان کے اس رویے سے عالمی بینک نے حال ہی میں دونوں طریقہ کار (غیر جانبدار ماہر کے ساتھ ثالثی اور ٹریبونل) پر کارروائی شروع کر دی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سندھ آبی معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ چھ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کا پانی کون ملک اور کیسے استعمال کرے گا۔ ان چھ میں سے تین دریا پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ باقی تین بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب دریا کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ دریائے راوی، بیاس اور ستلج دریا کے پانیوں پر بھارت کا حق ہے۔

لیکن اس معاہدے کے تحت بھارت سندھ، جہلم اور چناب دریا کا پانی بھی استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے اور بھارت کو ان دریاؤں پر بجلی گھر بنانے کی بھی اجازت ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ ان کے پانی کا بہاؤ ایک مقرر حد سے کم نہ ہونے پائے۔ قابل ذکر ہے کہ کشن کنگا جو کہ جہلم کا ہی ایک معاون دریا ہے۔ بھارت نے اسی دریا پر لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ایک بجلی گھر بنایا ہے، جسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کہتے ہیں اور اسی پر دونوں ملکوں کے خلاف شدید تنازعات ہیں۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)

Last Updated : Jan 27, 2023, 7:37 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.