لندن: انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سوڈان میں اپریل سے شروع ہونے والی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر اور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ جنگی جرائم میں سوڈان کی فوج اور مخالف نیم فوجی دستوں کے اہلکار بھی ملوث ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ دونوں جرنیلوں کی افواج نے جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اُن میں کم عمر لڑکیوں پر جنسی تشدد اور عام شہریوں کا بلا امتیاز نشانہ بنانا شامل ہے۔
رواں سال اپریل کی 15 تاریخ سے سوڈان کے آرمی چیف عبدالفتح البرہان اور اُن کے سابق نائب نیم فوجی سریع الحرکت فورس کے کمانڈر ہمدان داغلو کے افواج کے درمیان جنگ جاری ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کلامرد نے کہا کہ افواج کے درمیان علاقے پر قبضے کے لیے جاری جنگ میں پورے سوڈان میں عام شہری روزانہ کی بنیاد پر ناقبل تصور ہولناکی سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں افواج اور اُن سے منسلک مسلح دھڑوں کو فوری طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے روکنا ضروری ہے اور جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے والوں کو محفوظ راستہ دینے کی یقین دہانی کرانی چاہیے۔
سوڈان میں فوج نے سن 2019 میں بغاوت کر کے طویل عرصہ سے اقتدار میں رہنے والے عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اس کے بعد دو سال کے دوران جمہوریت کی جانب ایک سُست رفتار پیشرفت اور عبوری حکومت کے قیام کی کوششوں کو جنرل عبدالفتح البرہان نے اپنے نائب کمانڈر ہمدان داغلو سے مل کر ختم کر دیا تھا۔اکتوبر 2021 میں عبوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد رواں سال اپریل میں دونوں جرنیلوں کی افواج کے دھڑوں کی آپس میں جنگ شروع ہو گئی جس کو روکنے کے لیے سعودی عرب اور امریکہ نے متعدد مشترکہ کوششیں کیں اور کئی بار عارضی جنگ بندی ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک نجی تنظیم کے مطابق دارالحکومت خرطوم اور جنوبی علاقے دارفر میں ہونے والی شدید لڑائی کے دوران اب تک چار ہزار کے لگ بھگ ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور جنگ سے اب تک 33 لاکھ افراد علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا ہے کہ سوڈان میں بڑے پیمانے پر جنگی جرائم کیے جا رہے ہیں اور متحارب فریقوں کی جانب سے بلاامتیاز عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ (یو این آئی)