اسلام آباد: غیر ملکی جاسوس کے ساتھ 'خفیہ معلومات' شیئر کرنے کے جرم میں سزا یافتہ ایک ریٹائرڈ پاکستانی جنرل کو نئی فوجی قیادت نے معاف کرتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کر دیا ہے۔ سبکدوش لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو 29 دسمبر 2022 کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا۔ جب نئی فوجی قیادت نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ان کے کیس کا جائزہ لیا۔
جنرل اقبال کو 30 مئی 2019 کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) نے 'جاسوسی/قومی سلامتی کے لیے متعصب غیر ملکی ایجنسیوں کو حساس معلومات شیئر کرنے' کے جرم میں 14 سال کی قید (پاکستان میں عمر قید) کی سزا سنائی تھی۔ لیکن چار سال بعد ہی انھیں جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔ جیل میں بند جنرل کو رواں سال 29 مئی کو رہا کیا جانا تھا لیکن نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سزا کو معاف کر کے ان کی جلد رہائی کی راہ ہموار کر دی۔
پاکستانی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق، جاسوسی سے متعلق الزامات پر جنرل اقبال کی سزا، ایک تھری اسٹار ریٹائرڈ فوجی افسر اور کسی ایسے شخص کے لیے بھی تقریباً بے مثال تھی جو اہم عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے 2011 میں امریکی اسپیشل فورسز کے چھاپے کے بارے میں فوج کی اندرونی تحقیقات کی بھی قیادت کی تھی جس میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Pakistan New Army Chief نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی
واضح رہے کہ سزا کا اعلان کرتے وقت جنرل کورٹ مارشل نے نہ تو یہ انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے مبینہ طور پر کون سے راز غیر ملکی جاسوسوں تک پہنچائے اور نہ ہی غیر ملکی ایجنسی کی شناخت کی تھی۔ تحقیقات کے بعد جنرل اقبال پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی۔