سابق افغان صدر حامد کرزئی Ex-Afghan Prez hamid Karzai نے سی این این کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں طالبان کے حالیہ حکم نامے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو اپنا چہرہ ڈھانپنے کے لیے کہا گیا ہے، جبکہ برقع افغانی روایت نہیں ہے۔ طالبان کی ہدایت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم خواتین کی طرف سے چہرہ ڈھانپنا حجاب نہیں بلکہ بعض ممالک میں ایک روایت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان 1400 برسوں سے ایک مسلم ملک ہے، لیکن مسلم خواتین کے چہرے کو ڈھانپنا ملک میں روایت نہیں ہے۔Hamid Karzai on Taliban Hijab Decree
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ٹی وی پر خواتین کے چہروں کو ڈھانپنے کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے نئے فیصلے کو ماننا چاہیے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا افغان ثقافت سے کوئی تعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "انہیں اس کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ طالبان قیادت کو اس فیصلے کو منسوخ کرنا چاہیے، جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس سے افغانستان کو نقصان پہنچتا ہے، اس سے افغانستان کی ساکھ مجروح ہوتی ہے، اور یہ بالکل افغان نہیں ہے۔"
سابق صدر حامد کرزئی نے امارت اسلامیہ کی جانب سے سات سے لیکر بارہ جماعت کی طالبات پر پابندی کے فیصلے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ افغان عوام لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کے فیصلے کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ افغانستان کے وقار کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Taliban on Female TV Presenters: افغان خواتین ٹی وی میزبانوں کو چہرہ ڈھانپنے کی ہدایت
Taliban Order Women to Cover up Head to Toe: گوٹیریس کا طالبان کے حجاب سے متعلق حکم پر اظہارِ تشویش
کرزئی کے مطابق لڑکیوں کے اسکولوں پر پابندی کے بدقسمتی کے فیصلے سے افغانستان کو گہرا نقصان پہنچا ہے"۔سابق صدر اس سے قبل بھی افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔گزشتہ سال اگست میں افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔اگرچہ ملک میں لڑائی ختم ہو چکی ہے لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں۔