مصر کی ایک عدالت نے سابق صدارتی امیدوار عبدالمنعم ابو الفتوح Abdel Moneim Aboul Fotouh اور کالعدم اخوان المسلمون کے کئی سرکردہ شخصیات کو اتوار کے روز جھوٹی خبریں پھیلانے اور ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے 'جرم' میں طویل قید کی سزا سنائی ہے۔ اتوار کو عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 70 سالہ ابو الفتوح کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ Egypt Sentences EX Presidential Candidate
ابو الفتوح کی مصر پارٹی کے نائب سربراہ محمد القصاص Mohamed al-Qassas کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، جبکہ اخوان کے سابق سپریم گائیڈ محمود عزت کو بھی 15 سال کی سزا سنائی گئی، جو پہلے ہی دیگر الزامات میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے مصر میں اس طرح کی اجتماعی سزاؤں پر متعدد دفعہ تنقید کی ہے اور حکام سے منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت گروپوں کا کہنا ہے کہ ابو الفتوح اور القصاص جیسے افراد کی گرفتاریاں اور ٹرائل اختلاف رائے کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں جس میں نہ صرف اسلام پسند سیاسی مخالفین بلکہ جمہوریت نواز کارکنوں، صحافیوں اور آن لائن ناقدین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
مصر میں اخوان المسلمون کے 10 رہنماؤں کی عمر قید کی سزا برقرار
'مصری فوج ہی مرسی کی موت کی ذمہ دار'
ابو الفتوح اخوان المسلمون کے ایک سابق سینئر رہنما ہیں، جنہیں 2011 میں اس گروپ سے نکال دیا گیا تھا جب انہوں نے مصر کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔انھیں اور القصاص کو فروری 2018 میں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت پر سخت تنقید کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
قاہرہ کی عدالت نے معز الشرقاوی کو بھی اسی طرح کے الزامات میں 10 سال قید کی سزا سنائی، یہ کالعدم گروپ اخوان المسلمون کے رکن تھے، اخوان المسلمون کو مصر نے 2013 میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا تھا۔
مصر نے اخوان پر پابندی عائد کر دی تھی جب اس وقت کے آرمی چیف سیسی نے 2013 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد جمہوری طور پر منتخب اخوان صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ مرسی 2019 میں جیل میں ہی انتقال کر گئے، جب کہ گروپ کے دیگر رہنماؤں کو سیاسی اختلاف کی وجہ سے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں جیل بھیج دیا گیا یا ملک بدر کر دیا گیا۔