اسلام آباد: پاکستانی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں عمران خان نے کہا کہ اس مجرم مافیا کو این آر او دوم ملے گا اور نیب کے زیرِ تفتیش 1200 ارب میں سے 1100 ارب روپے مالیت کے مقدمات اب نیب کے دائرہ کار سے نکل جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ پاکستان کے خلاف اس سازش کے منصوبہ سازوں اور اسے کامیاب بنانے والوں کو فراموش کرے گی، نہ ہی کبھی معاف کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ تباہی ان معاشروں کا مقدر بنتی ہے جہاں کمزور کی پیٹھ پر تو تعزیر کا کوڑا برستا ہے مگر طاقتور قانون کی پہنچ سے دور رہتے ہیں، آج نیب کے اس ترمیم شدہ قانون کے ساتھ ہم وائٹ کالر کرائم کے مجرموں کو احتساب سے مبرّا کرتے ہوئے تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب مجرموں کی امپورٹِڈ سرکار کے ترمیم شدہ نیب قانون نے احتساب ہی کو دفن کردیا۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت میں تبدیلی کی امریکی سازش کے ذریعے محض مجرموں کے اس ٹولے کو ایک اور این آر او دینے کے لیے پاکستان کی پوری معیشت اور سیاسی نظام کو پٹری سے اتارا گیا، مسل لیگ (ن) کا خرم دستگیر اس کی تصدیق کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب ہماری معیشت مستحکم ہونے کے بعد 6 فیصد کی پائیدار ترقی کی جانب بڑھ رہی تھی تو منصوبہ سازوں نے محض ان مجرموں کو این آر او-دوم دینے کے لیے معیشت کو تباہی کے گڑھے میں پھینک کر اور ہمارے لوگوں پر مہنگائی کا ایک بم گرا کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا مناسب جانا۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے نجی ٹی وی شو کے دوران سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس اپنے اقتدار کو 15 سال تک توسیع کے لیے مخالف جماعتوں کی تمام قیادت کو نااہل کروانے جیسے ’فاشسٹ منصوبے‘ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کو صرف ڈیڑھ سال کے لیے ملک کی حکمرانی کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور یہ اتحاد صرف اس لیے بنایا گیا تھا کیونکہ عمران خان نے اس ملک پر حملہ کرنے کا فاشسٹ منصوبہ بنایا تھا۔
یاد رہے کہ پچھلے مہینے قومی اسمبلی اور سینیٹ نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے علاوہ نیب ترمیمی بل کو بھی منظور کیا تھا، دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے بعد اسے قانون بننے کے لیے صرف صدر کی رضامندی کی ضرورت تھی تاہم عارف علوی نے بلز کو واپس کر دیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے 9 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایوان بالا اور ایوان زیریں کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 اور نیب آرڈیننس 1999 ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیے تھے۔
گزشتہ روز ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ترمیمی بل اور آج قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022 بھی بغیر دستخط کے واپس کر دیا۔ مشترکہ اجلاس میں بل منظور ہونے کے بعد ایک بار پھر صدر مملکت کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا تھا، اگر صدر مملکت 10 دن میں اس بل کو منظور نہیں کرتے تو اسے منظور تصور کیا جائے گا۔صدر مملکت کی جانب سے دو مرتبہ مسترد کیے جانے کے بعد ممکنہ طور پر دو ہفتے بعد یہ دونوں بل نافذالعمل ہو جائیں گے اور اس کے لیے صدر کی منظوری درکار نہیں ہو گی۔
عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب احتساب عدالت لاہور نے رمضان شوگر ملز ریفرنس میں پیر کے روز وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی حاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی ہے۔ (یو این آئی)