اقوام متحدہ کے اعلی نمائندے میگل اینجل موراٹینوز کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ جہاں اعلیٰ نمائندے اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں وہیں وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ قرآن جلانے کا عمل مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار کے مترادف ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اسلام کے ماننے والوں کی توہین ہے اور اسے آزادی اظہار سے نہیں ملایا جانا چاہیے۔ انہوں نے باہمی احترام کی تعمیر اور سب کے لیے انسانی حقوق اور وقار پر مبنی جامع اور پرامن معاشروں کے فروغ پر زور دیا۔
آذربائیجان نے سویڈن میں قرآن پاک پر حملے کی مذمت کی ہے۔ آذربائیجان کی وزارت خارجہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ قرآن پر حملہ نفرت انگیز جرم ہے اور اسےآزادی برائے اظہار خیال کے زمرے میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کریم کی توہین کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم سویڈش حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نفرت انگیز جرم کے مرتکب افراد کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ترکی میڈیا کے مطابق دریں اثنا، شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر ایرسین تاتار نے سویڈن میں ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فرسودہ حرکتیں پوری دنیا کے لیے خطرہ اور عالمی امن کو متاثر کرنے والے کسی دھماکہ خیز مواد کی طرح ہوتی ہیں۔ سینیگال کے صدر میکی سال نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ میں قرآن کریم کو نذر آتش کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے راسمس پالوڈن کے اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہمیں اسلام و فوبیا اور مسلمانوں کی مخالفت کے خلاف بلا کسی رعایت کے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Burning of Quran in Sweden سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی، ترکیہ سمیت دیگر اسلامی ممالک کا سخت ردعمل
شام کے شمالی علاقوں بیزیا۔ چوبان بے اور مارے میں ہزاروں افراد نے اسلامی اقدار کے خلاف اس بے حرمتی کی مذمت کی۔ مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی جانب بڑھنے والے ہاتھ ٹوٹ جائیں، قرآن کریم ہمیں صراط ِ مستقیم کا درس دیتا ہے، "قرآن پاک ہمارا راستہ، ظلم کے خلاف خاموشی شیطانی کام ہے۔ عراق میں صدر تحریک کے رہنما مقتدیٰ الصدر نے سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مذمت کے لیے دس لاکھ دستخط جمع کر کے سویڈن کے سفارت خانے کو بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مغربی تھریس میں ترک اقلیتی اداروں اور تنظیموں نے بھی سویڈن میں قرآن پر حملے کی مذمت کی۔ اسکیچے کے مفتی کے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سویڈش حکام کے لیے قرآن پر حملے کو آزادی فکر سمجھنا ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ مغربی تھریس کے مسلمان ترک ہونے کے ناطے، ہم اپنی مقدس کتاب قرآن اور ہمارے مذہب اسلام کے خلاف اس بدصورت رویہ اور عمل کی شدید مذمت اور مذمت کرتے ہیں۔ ترکش امریکن نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی جو کہ امریکہ میں تقریباً 155 ترک انجمنوں کی چھت تلے ایک تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے نے سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی۔
وہیں توہین قرآن پر ترکیہ میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا، ہاتھوں میں قرآنِ کریم کے نسخے کو اٹھائے مظاہرین اللہ اکبر کا ورد کر رہے ہیں۔ مسلم دنیا کے غم و غصے پر سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے بیان جاری کیا کہ اسلامو فوبک اشتعال خوفناک ہے۔ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سویڈن کی حکومت، یا میں اس طرح کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)