برطانوی پارلیمنٹ کے 50 سے زائد ارکان کے مستعفی ہونے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن Boris Johnson نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ سیاست میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا لیکن دنیا کی بہترین جاب چھوڑنے پر انتہائی افسوس ہے۔ انھوں نے کہا کہ کابینہ کے اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا لیکن وزیراعظم کی تبدیلی درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ UK PM Boris Johnson Resigns
اپنے خطاب میں بورس جانسن نے مزید کہا کہ یہ واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی ایک نئے لیڈر اور ایک نئے وزیراعظم کا انتخاب چاہتی ہے اس لیے میں پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے استعفی کا فیصلہ کیا ہے۔ جانسن نے اپنی حکومت کے دوران متعدد کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ کی تکمیل، کورونا وبا سے ملک کا نکالنا اور مغربی ممالک کو یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف اکٹھا کرنا بڑی کامیابیاں ہیں اس کامیابی پر مجھے فخر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی جو بھی نیا لیڈر منتخب کرے گی میں اس کا مکمل سپورٹ کروں گا۔ اخیر میں بورس جانسن نے اپنی اہلیہ کیری سائمنڈز، بچوں اور اپنے دوستوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بورس جانسن UK PM Boris Johnson نے دو دن قبل جس شخص کو وزیر خزانہ کے عہدے پر تقرر کیا تھا، اسی نے یعنی ندیم زاہاوی نے جمعرات کو انہیں مشورہ دیا کہ وہ عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جانسن کی حکومت جلد گرنے کا امکان ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق بورس جانسن نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور انھوں نے کنزرویٹیو پارٹی لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کو اب نئے لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس عمل میں تقریباً دو ماہ لگ سکتے ہیں۔
برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ آئندہ کچھ گھنٹوں میں وزیراعظم بورس جانسن بیان جاری کریں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم بورس جانسن آج قوم کے نام ایک بیان جاری کریں گے۔ جس میں جانسن وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ کا اعلان بھی کرسکتے ہیں تاہم وہ نئے وزیراعظم کے انتخاب تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔ برطانیہ میں 90 برس میں پہلی دفعہ کابینہ نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ہی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
UK Political Crisis: اگر حکومت چلانا مشکل ہوا تو مستعفی ہوجاؤں گا، برطانوی وزیراعظم
قابل ذکر ہے کہ بورس جانسن کے خلاف ان کی اپنی کنزرویٹو پارٹی میں بغاوت ہونے سے اب تک 50 وزراء مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد سے ان پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اپوزیشن لیبر پارٹی بھی ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ گزشتہ روز برطانوی وزیر خزانہ رشی سنک اور سکریٹری صحت ساجد جاوید کے استعفوں کے اعلان کے ایک دن بعد پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ انہیں اب وزیر اعظم کی قیادت پر اعتماد نہیں ہے ، جانسن نے کہا کہ ایک منتخب حکومت کو بحران کے وقت پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ برطانوی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے اور ہم اس پر عمل پیرا ہیں۔