ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی حکومت نے 191 ویب سائٹس کو ریاست مخالف خبریں شائع کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بند کرنے کا حکم دے دیا ہے، جس سے بنگلہ دیش میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ڈان میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اطلاعات حسن محمود نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا کہ حکومت نے ٹیلی کام ریگولیٹر کو ہدایت جاری کردی ہے کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق مذکورہ ویب سائٹس کے ڈومینز بند کر دیں۔انہوں نے ان نیوز ویب سائٹس کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ ویب سائٹس ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو عوام کے ذہنوں میں الجھن پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے خود پر تنقید کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوششوں پر سماجی حقوق کی تنظیموں اور امریکا سمیت غیر ملکی حکومتیں طویل عرصے سے تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔بنگلہ دیش کا سخت گیر قانون ’ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ‘ سب سے زیادہ تشویش کا باعث بنا جس کے تحت 2018 کے بعد سے اب تک سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 'آرٹیکل 19 ساؤتھ ایشیا‘ کے علاقائی ڈائریکٹر فاروق فیصل نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کی ترویج کا رخ حکومت کو طے نہیں کرنا چاہیے‘۔انہوں نے کہا کہ نیوز ویب سائٹس کو بلاک کرنے سے ملک میں آزادی اظہار رائے کا حق پامال ہوگا اور غلط اور جھوٹی معلومات کا بآاسانی پھیلاؤ ممکن ہوجائے گا۔
ترجمان سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ اسٹیفن دوجارک نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے کے حق کا تحفظ ضروری ہے۔انہوں نے نیویارک میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ صحافیوں کو اپنی نیوز ویب سائٹس آزادانہ اور بلا روک ٹوک چلانے کا حق حاصل ہے، ہم اس سمت میں مثبت پیش رفت دیکھنا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز 2022 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے بنگلہ دیش کو 162 ویں نمبر پر رکھا جو روس (155) اور افغانستان (156) کی درجہ بندی سے بھی بدتر ہے۔
یو این آئی