قصرہ، مغربی کنارہ: حماس کے عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد جب اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا تو فلسطینیوں کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک مختلف قسم کی جنگ چھڑ گئی۔ یہاں راتوں رات، کئی علاقوں کو بند کر دیا گیا۔ قصبوں پر چھاپے مارے گئے، کرفیو لگا دیا گیا، نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، قیدیوں کو مارا پیٹا گیا، اور دیہاتوں پر یہودی محافظوں نے دھاوا بول دیا۔
دنیا کی توجہ غزہ اور وہاں کے انسانی بحران پر ہے، لیکن مغربی کنارے میں بھی جنگ کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کشیدگی سے مغربی کنارہ میں خوف کا ماحول ہے۔ یہاں مایوسی گہرا گئی ہے اور فلسطینیوں کی روزی روٹی، ان کے گھروں اور بعض صورتوں میں ان کی زندگی کو بھی چھین لیا ہے۔
مغربی کنارہ کے 52 سالہ کسان صابری بوم کا کہنا ہے کہ، "ہماری زندگیاں جہنم ہیں،" صابری بوم نے گزشتہ ہفتے اپنے بچوں کو آباد کاروں سے بچانے کے لیے اپنی کھڑکیوں کو دھاتی گرلز سے مضبوط کیا، اس نے کہا کہ ایک شمالی گاؤں قاریوت میں سٹن گرینیڈ پھینکے گئے، اس کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے وہ جیل میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الشفاء اسپتال سے قبل از وقت پیدا ہونے والے 31 بچوں کو نکال لیا گیا
فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ چھ ہفتوں میں آباد کاروں نے نو فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اہلکار غسان دغلاس نے کہا کہ انہوں نے فصل کی کٹائی کے اہم سیزن کے دوران زیتون کے 3,000 سے زیادہ درختوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آباد کاروں نے گلہ بانی برادریوں کو ہراساں کیا ہے۔ 900 سے زیادہ لوگوں کو 15 بستیوں کو ترک کرنے پر مجبور کیا ہے جنہیں وہ طویل عرصے سے گھر کہتے تھے۔
جب آباد کاروں کے حملوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اسرائیلی فوج نے صرف اتنا کہا کہ اس کا مقصد تنازعات کو ختم کرنا ہے اور اگر اسرائیلی شہری قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو فوجیوں کو "کارروائی کرنے کی ضرورت ہے"۔
امریکی صدر بائیڈن اور انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں نے بارہا آبادکاروں کے تشدد کی مذمت کی ہے، تاہم انہوں نے غزہ میں اسرائیلی مہم کا دفاع کیا ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے، 2023 پہلے ہی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے لیے دو دہائیوں میں سب سے مہلک سال ثابت ہو چکا ہے، اس سال اسرائیلی کی فوجی کاروائیوں کے دوران فائرنگ سے 250 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق ان چھ ہفتوں کی جنگ کے دوران، اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے مزید 206 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ جنگ: اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں پر اسرائیل کی بمباری، بائیڈن کا جنگ بندی سے انکار
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ آباد کار مغربی کنارے کو اپنا بائبلی پیدائشی حق قرار دیتے ہیں۔ زیادہ تر بین الاقوامی برادری 700,000 اسرائیلیوں کی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو متنازعہ زمین سمجھتا ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ بستیوں کی قسمت کا فیصلہ مذاکرات میں ہونا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کہتا ہے کہ فوج، قابض طاقت کے طور پر، فلسطینی شہریوں کی حفاظت کرے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ تقریباً چھ دہائیوں پر محیط قبضے میں اکثر اسرائیلی فوجی انہیں آباد کاروں کے حملوں سے بچانے میں ناکام رہے یا ان میں شامل ہو گئے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے، آباد کاروں اور فوجیوں کے درمیان حالات مزید خراب ہو گیے ہیں۔ فسلطینیوں کے مطابق "یہ دہشت گردی، یہ دباؤ پہلے کے برعکس ہیں۔"