تل ابیب: اسرائیل کی سپریم کورٹ نے سات کے مقابلے آٹھ ووٹوں کے فیصلے سے، نتن یاہو حکومت کے عدالتی قانون میں ترمیم کے بل کو مسترد کر دیا۔ ایسا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ نتن یاہو حکومت کا یہ بل عدلیہ کو کمزور کرنے کی کثیر الجہتی کوششوں اہم جزو تھا۔ گزشتہ سال اسرائیل کی پارلیمنٹ نے اس بل کو منظور کیا تھا۔ اس بل نے سپریم کورٹ کو حکومتی فیصلوں کو غیر معقول قرار دینے کے اختیار سے محروم کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے مخلوط حکومت کا اتحاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔ دراصل وزیراعظم نتن یاہو اس قانون کی حمایت کر رہے تھے۔ اسی وقت مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ بیزلیل اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ اس قانون کی مخالفت کر رہے تھے۔ اسموٹریچ نے عدالتی قانون سازی کو تفرقہ انگیز قرار دیا ۔ 15 میں سے 12 ججوں نے فیصلہ دیا کہ نیم آئینی بنیادی قوانین کو منسوخ کرنا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس قانون سے اسرائیل کی بطور جمہوری ریاست کی خصوصیات کو نقصان پہنچے گا۔
کچھ اسرائیلی لیڈروں کا خیال ہے کہ متنازع عدالتی قانون کی وجہ سے حکومت میں دو دھڑے پیدا ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے، نتن یاہو نے گیلنٹ کو عارضی طور پر برخاست کر دیا تھا کیونکہ گیلنٹ قانون کی مخالفت کر رہے تھے۔ نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کا سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ افسوسناک ہے۔ جنگ کے دوران یہ فیصلہ درست نہیں۔ تو دوسری جانب اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم یائر لاپڈ نے عدالت کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس فیصلے سے ہمیں توڑ دیا تھا یہ ہماری تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔ یہ قابل تعریف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ سے اپنے ہزاروں فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے
وزیر انصاف یاریو لیون نے گزشتہ سال جنوری کے پہلے ہفتے میں عدالتی نظام میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی۔ عدالتی نظام میں ترامیم کے ذریعے حکومت سپریم کورٹ کے نامزد امیدواروں کو نظرثانی کمیٹی کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ نتن یاہو حکومت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا حق دینے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔ نئے قانون کے تحت 120 نشستوں والی اسرائیلی پارلیمنٹ میں 61 ارکان پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کیا جا سکتا تھا۔ عدالتی قانون میں ترمیم سے اس نظام میں بھی تبدیلی آئے گی جس کے ذریعے ججوں کی تقرری کی جاتی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس قانون میں اصلاحات سے سیاستدانوں کو عدلیہ پر مزید کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔