افغانستان میں طالبان کی حکومت اور انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی گروپ نے کہا ہے کہ گوانتاناموبے Guantanamo Bay میں تقریباً 15 سال سے قید ایک افغان قیدی کو امریکی حراست سے رہا کر دیا گیا ہے۔ اسد اللہ ہارون گل کی رہائی کا اعلان جمعہ کو طالبان کے نائب وزیر ثقافت اور اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کیا، جس نے کہا کہ گُل گوانتاناموبے میں قید آخری دو افغان قیدیوں میں سے ایک تھے۔Afghani Released from Guantanamo Bay
قطر میں مقیم طالبان کے ایک سینیئر اہلکار سہیل شاہین نے کہا کہ گُل، جو جلد ہی کابل کے لیے روانہ ہونے والے ہیں، کو 2007 میں جلال آباد میں امریکی افواج نے حراست میں لیا تھا اور اسے بغیر کسی مقدمے کے 15 سال تک قید رکھا گیا تھا۔
امریکہ نے 9/11 کے حملوں اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے افغانستان پر حملے کے بعد جنوری 2002 میں صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل کھولی تھی۔ اس بدنام جیل کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کو پکڑنے اور ان سے پوچھ گچھ کے لیے استعمال میں لایا گیا، متعدد ممالک سے درجنوں مشتبہ افراد کو وہاں قید کیا گیا جہاں پر قیدیوں کی تذلیل اور تشدد کی خبریں سامنے آنے کے بعد یہ جیل کافی زیادہ بدنام ہوئی۔امریکی حکام کو اس جیل میں قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کا سامنا رہا ہے جن میں سے کچھ قیدیوں کو مبینہ طور پر پنجروں میں رکھا گیا اور تفتیش کے غیرقانونی طریقوں کا نشانہ بنایا گیا۔
طالبان حکومت کے نائب وزیر ثقافت اور اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گُل کو امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی کوششوں اور امریکہ کے ساتھ براہ راست اور مثبت بات چیت کے نتیجے میں باقی دو قیدیوں میں سے ایک اسد اللہ ہارون کو گوانتاناموبے جیل سے رہا کر دیا گیا۔
دوسرے قیدی محمد رحیم ہیں جن پر سی آئی اے نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ رحیم کو بھی جلد رہا کر دیا جائے گا۔
مجاہد نے گُل کے ٹھکانے کے بارے میں مزید کوئی تفصیلات شیئر نہیں کیں لیکن الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ریپریو نے کہا کہ گُل کو 2007 میں گوانتاناموبے منتقل کیا گیا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ "اس کے خاندان کو کئی برسوں سے ان کے مرنے کا خدشہ تھا اور اس کی قید کے پہلے نو برسوں تک، قانونی نمائندگی حاصل کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود اسے وکیل تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
ریپریو نے 2016 میں گُل کی جانب سے ایک درخواست دائر کرکے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ برسوں کی قانونی چارہ جوئی کے بعد، اکتوبر 2021 میں، واشنگٹن کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ گُل القاعدہ کا حصہ نہیں ہے اور ان کی رہائی کا حکم بھی صادر کیا۔ ریپریو کے بیان کے مطابق گُل کو حراست کے دوران شدید جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی گئیں، جن میں مارا پیٹا جانا، کلائیوں سے لٹکانا، کھانے اور پانی سے محروم کرنا اور نماز پڑھنے سے روکنا شامل ہے۔ اسے نیند کی کمی، انتہائی سرد درجہ حرارت اور قید تنہائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے وائس چیئرمین ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے گُل کی رہائی کی اجازت دینے پر بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔۔روبیو نے طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جنہوں نے گزشتہ اگست میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ دہشت گرد تنظیم جو اب افغانستان کو کنٹرول کرتی ہے وہ گُل اور نہ ہی مستقبل میں رہائی پانے والے کوئی بھی قیدی میدان جنگ میں واپس نہیں آنے کو یقینی نہیں بنا سکتی اور ممکنہ طور پر وہ امریکیوں یا دیگر بے گناہ شہریوں کو ہلاک کریں گے۔