تہران: ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنا غزہ میں اسرائیل کے اقدامات پر منحصر ہوگا۔ اگرچہ تہران طویل عرصے سے حماس کا حمایتی رہا ہے لیکن ایرانی حکام اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ہفتے کے روز اس کے قدیم دشمن اسرائیل کے خلاف عسکریت پسندوں کے حملے میں ان کے ملک کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ البتہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ ایک اور خاصے مسلح اسلامی گروپ حزب اللہ کی مداخلت کی صورت میں لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد پر دوسرا محاذ کھل جائے گا۔
وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے عراقی وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی سے بغداد میں ملاقات کے دوران کہا کہ کچھ ممالک کے حکام ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور خطے میں ایک نیا محاذ کھل جانے کے امکانات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ایرانی امورخارجہ کے ایک بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ مستقبل کے امکانات کے حوالے سے ہمارا واضح جواب یہ ہے کہ غزہ میں سب کچھ اسرائیلی حکومت کے اقدامات پر منحصر ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کے جرائم جاری ہیں اور خطے میں کوئی بھی ہم سے نئے محاذ کھولنے کی اجازت نہیں مانگتا۔
بعد ازاں جمعرات کو عبداللہیان لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچے جہاں حزب اللہ اور حماس کے علاوہ دیگر ایران نواز گروہوں نے ان کا استقبال کیا۔ دمشق جانے سے قبل وہ آج لبنانی حکام سے ملاقات کریں گے۔ بیروت کے ہوائی اڈے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر غزہ پر اسرائیل کی جارحیت بڑھے تو ان کے ملک کے علاقائی اتحادی جو محورِ مقاومت کے نام سے معروف ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں۔انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ فلسطینیوں اور غزہ کے خلاف جنگی جرائم کے تسلسل کا باقی محوروں سے جواب ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: Hamas Israel War حماس اسرائیل جنگ: غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کی سازش؟
مغرب ہفتے کے روز سے ایران کے بارے میں محتاط ہے لیکن اس کے رہنماؤں نے تہران کو جنگ میں مداخلت کے خلاف کسی غیر یقینی شرائط کے بغیر خبردار کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کہا کہ انہوں نےایرانیوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ہوشیار رہیں۔ عراق کے بعد امیر عبداللہیان لبنان جا رہے ہیں جہاں حزب اللہ اپنے اتحادی حماس کی طرف سے شروع کردہ جنگ میں شامل ہونے سے باز رہنے پر تاحال راضی ہے۔
یو این آئی