یمنی شہر تائز کی تاریخی مسجد المظفر میں رمضان المبارک کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ مسجد تیرہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور اسے شہر کا اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔
تائز کے مقامی باشندہ صلاح محمد کا کہنا ہے کہ ''المظفر مسجد کا ماحول انتہائی روحانی ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر اس مسجد کو دوسروں سے ممتاز سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ تائز شہر کا لینڈ مارک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام مسلک، جماعتیں، گروہ اور معاشرے کے افراد اس مسجد میں آتے ہیں کیونکہ اس کی بہت سی تاریخی خصوصیات ہیں۔ اور مسجد کے اندر تمام تنازعات، سیاست اور ذاتی اختلافات کو بھلا دیا جاتا ہے۔"
یمن کے دارالحکومت صنعا کے 256 کلومیٹر (159 میل) جنوب میں واقع تائز ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے مابین جنگ کا مقام بنا ہوا ہے۔ یہاں سرکاری فوج اور حوثی گزشتہ چھ سال سے لڑ رہے ہیں۔
اس جنگ نے عرب دنیا کی غریب ترین قوم کو ایک سیاسی اور معاشی بحران کی جانب ڈھکیل دیا ہے۔
رمضان المبارک کے دوران تائز کے بازار میں خریداری کرنے کے لئے لوگوں کا ہجوم دکھائی دے رہا ہے جو قیمتوں میں اضافے کی شکایت کر رہے ہیں۔
تائز کے باشندہ عبدالکافی الصمعی کا کہنا ہے کہ "لوگ رمضان میں پریشان ہیں، انہیں کھانے پینے، دوا خریدنے اور اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ ان سب کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور مقامی انتظامیہ کے ذریعہ قیمت میں اضافے کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا ہے"
سجے ہوئے بازار میں لوگ کئی قسم کی خریداری کر رہے ہیں۔ مقامی باشندہ علی الحمیری کا کہنا ہے کہ "سموسہ لوگوں کے لئے کھانے کی اہم چیز ہے۔ تقریباً 95 فیصد لوگ رمضان المبارت کے موقع پر اسے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ بھاگیہ (سبزیوں میں ملا ہوا اور تیل کے ساتھ پکا ہوا) بھی پسند کرتے ہیں لیکن سموسوں کو رمضان المبارک کے لئے اہم تصور کیا جاتا ہے، چاہے وہ اسے فروخت کرنے والوں کے لئے ہو یا اسے کھانے والوں کے لئے۔''
یمن کو 2014 سے خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب حوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور اس ملک کے بیشتر شمالی حصے کا کنٹرول سنبھال لیا جس کے نتیجے میں صدر عابد ربو منصور ہادی پہلے جنوب پھر سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔
ملک بدر صدر کے ساتھ سعودی زیرقیادت اتحاد مارچ 2015 سے باغیوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔
یمن کی جنگ نے دنیا کے بدترین انسانی بحران کو جنم دیا ہے اور لاکھوں افراد خوراک اور طبی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔
ایک ڈیٹا بیس پروجیکٹ کے مطابق یمن میں جاری تشدد کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔