لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ پر دھماکے کی تفتیش کرنے والے جج طارق بطار کے خلاف جسٹس پیلس کے باہر احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق احتجاج کے دوران جھڑپوں میں ابھی تک کم سے کم چھ افراد ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
طارق بطار، بندرگاہ دھماکے کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے دوسرے جج ہیں، حزب اللہ نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جج طارق بطار نے حزب اللہ سے وابستہ سیاستدانوں کو پوچھ گچھ کے لیے اکٹھا کیا ہے۔
یہ احتجاج ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے تھا جسے لبنان کی سب سے طاقتور سیاسی اور عسکری قوت سمجھا جاتا ہے۔
احتجاج کرنے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جج طارق بطار کو دھماکے کی تحقیقات سے ہٹایا جائے۔
لبنان کی حزب اللہ اور ان کی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بیروت میں مسلح گروپوں نے کئی مظاہرین پر فائرنگ کی۔ مظاہروں کے دوران یہ فائرنگ بظاہر مختلف عمارات کی چھتوں سے کی گئی۔
علاقے میں فوج کے دستے تعینات ہونے کے بعد بھی فائرنگ جاری رہی اور فائرنگ کی آواز گونجتی رہی۔
- لبنان میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی پریشان ہے
- لبنان میں خوفناک معاشی بحران، بیروت بینک کے قریب ڈپازیٹرز کا ہنگامہ
لبنان کے وزیراعظم نجیب میکاتی نے مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ پُرامن رہیں، ’ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی جس کے باعث لوگ زخمی ہوئے
بدھ کو کابینہ کا ایک اجلاس کو بھی منسوخ کر دیا گیا جب حزب اللہ نے جج کے خلاف فوری حکومتی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ حزب اللہ سے وابستہ ایک وزیر نے کہا کہ اگر جج طارق بطار کو نہ ہٹایا گیا تو وہ اور کابینہ کے دیگر ارکان واک آؤٹ کریں گے۔
دراصل سیکڑوں ٹن امونیم نائٹریٹ جو 4 اگست 2020 کو ایک بندرگاہ کے گودام میں غلط طریقے سے ذخیرہ کیا گیا تھا وہ بلاسٹ کرگیا تھا، جس میں کم از کم 215 افراد ہلاک ، ہزاروں زخمی اور قریبی محلوں کے کچھ حصے تباہ ہوگئے تھے۔
یہ تاریخ کے سب سے بڑے غیر ایٹمی دھماکوں میں سے ایک تھا اور جس نے پہلے ہی سے سیاسی تقسیم، معاشی اور مالی تباہی سے دوچار ملک کو مزید تباہ کر دیا ہے۔
اس بلاسٹ کی پیچیدہ تحقیقات کی قیادت کرنے والے دوسرے جج طارق بطار نے لبنان کے طاقتور حزب اللہ گروپ اور اس کے اتحادیوں کی زبردست مخالفت کی ہے جو ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ سیاستدانوں کو پوچھ گچھ کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر کا حزب اللہ سے اتحاد ہے۔
14 ماہ پرانے تفتیش میں حزب اللہ کے کسی بھی عہدیدار پر اب تک فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔