ETV Bharat / international

شام: بشار الاسد کی فتح پر کہیں جشن، کہیں مظاہرے

انتخاب کو شام میں حزب اختلاف اور مغربی ممالک نے ناجائز اور شرمناک قرار دیا ہے۔

Syria elections
Syria elections
author img

By

Published : May 28, 2021, 11:04 PM IST

شام کے صدر ( Syrian President ) بشار الاسد ( Bashar Assad ) ایک بار پھر صدارتی انتخاب presidential election میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ اس طرح چوتھی بار شام ( syria ) میں صدر کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ شام میں صدر کی مدت سات سال ہوتی ہے۔ حالانکہ اس انتخاب کو شام میں حزب اختلاف اور مغربی ممالک نے ناجائز اور شرمناک قرار دیا ہے۔

شام: بشار الاسد کی فتح پر کہیں جشن کہیں مظاہرے

عہدیداروں کے مطابق شام میں 18 ملین ووٹر ہیں۔ اسد کی جیت کے متعلق کسی کو شکوک نہیں تھے۔

اسد کی فتح کے بعد ان کے حمایتیوں نے سڑکوں پر جلوس نکالے اور نعرےبازی کی۔

اس کے حمایتی ایک ووٹر عبیر العلی نے کہا کہ ''ہم خاص طور پر صدر بشار الاسد کی جیت سے بہت خوش ہیں اور یہ اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے مرحلے میں ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی ہم خواہش کریں گے۔"

اس دوران بڑی تعداد میں ملک بھر میں لوگوں نے صدارتی انتخاب کے خلاف ریلی نکالی اور صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے لگائے۔

مظاہرہ میں شامل ایک شخص سلوا عبد الرحمن نے کہا کہ ''میں نے فیس بک کھولا تاکہ بشار الاسد کو اپنے آپ کو منتخب کرتے ہوئے دیکھوں۔ یہ لوگوں کو کس قدر ہلکا پھلکا سمجھ رہے ہیں۔ میں یہاں اپنا ووٹ ڈالنے آیا ہوں، آپ کی قانونی حیثیت سے انکار کرتا ہوں اور اس انتخاب سے کیونکہ آپ نے شامی لوگوں کا قتل کیا ہے، انہیں بے گھر کیا ہے اور حراست میں لیا ہے اور وہ ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ہم یہاں کہنے آئے ہیں کہ اس انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔''

گزشتہ دس سالوں سے تنازع کے شکار اس ملک میں باغیوں یا کردوں کی زیر قیادت فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں ووٹ نہیں ڈالے گئے۔

تقریباً 8 لاکھ بے گھر ہونے والے افراد شمال مغربی اور شمال مشرقی شام کے ان علاقوں میں رہتے ہیں۔

اس دوران تقریباً 50 لاکھ سے زیادہ مہاجرین، جن میں زیادہ تر ہمسایہ ممالک میں رہتے ہیں نے اپنے حق رائے دہی سے پرہیز کیا ہے۔

امریکی اور یورپی عہدیداروں نے بھی انتخابات کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف کی گئی ہے، اس کے علاوہ انتخاب میں بین الاقوامی نگرانی کا فقدان ہے اور یہ تمام شامی باشندوں کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔

شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہمود صباغ نے بدھ کے ڈالے گئے ووٹ کے نتیجے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسد نے 95.1 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

اسد کو دو امیدواروں سے علامتی طور پر مقابلے کا سامنا کرنا پڑا جن میں ایک سابق وزیر اور سابق حزب اختلاف کے رہنما تھے۔

شام میں تنازعے کے باعث پورا ملک تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ ملک میں لڑائی ختم ہوگئی لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی۔

شام میں 80 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پورا ملک معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ مقامی کرنسی آزادانہ زوال کا شکار ہوئی ہے۔

شام کے صدر ( Syrian President ) بشار الاسد ( Bashar Assad ) ایک بار پھر صدارتی انتخاب presidential election میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ اس طرح چوتھی بار شام ( syria ) میں صدر کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ شام میں صدر کی مدت سات سال ہوتی ہے۔ حالانکہ اس انتخاب کو شام میں حزب اختلاف اور مغربی ممالک نے ناجائز اور شرمناک قرار دیا ہے۔

شام: بشار الاسد کی فتح پر کہیں جشن کہیں مظاہرے

عہدیداروں کے مطابق شام میں 18 ملین ووٹر ہیں۔ اسد کی جیت کے متعلق کسی کو شکوک نہیں تھے۔

اسد کی فتح کے بعد ان کے حمایتیوں نے سڑکوں پر جلوس نکالے اور نعرےبازی کی۔

اس کے حمایتی ایک ووٹر عبیر العلی نے کہا کہ ''ہم خاص طور پر صدر بشار الاسد کی جیت سے بہت خوش ہیں اور یہ اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے مرحلے میں ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی ہم خواہش کریں گے۔"

اس دوران بڑی تعداد میں ملک بھر میں لوگوں نے صدارتی انتخاب کے خلاف ریلی نکالی اور صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے لگائے۔

مظاہرہ میں شامل ایک شخص سلوا عبد الرحمن نے کہا کہ ''میں نے فیس بک کھولا تاکہ بشار الاسد کو اپنے آپ کو منتخب کرتے ہوئے دیکھوں۔ یہ لوگوں کو کس قدر ہلکا پھلکا سمجھ رہے ہیں۔ میں یہاں اپنا ووٹ ڈالنے آیا ہوں، آپ کی قانونی حیثیت سے انکار کرتا ہوں اور اس انتخاب سے کیونکہ آپ نے شامی لوگوں کا قتل کیا ہے، انہیں بے گھر کیا ہے اور حراست میں لیا ہے اور وہ ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ہم یہاں کہنے آئے ہیں کہ اس انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔''

گزشتہ دس سالوں سے تنازع کے شکار اس ملک میں باغیوں یا کردوں کی زیر قیادت فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں ووٹ نہیں ڈالے گئے۔

تقریباً 8 لاکھ بے گھر ہونے والے افراد شمال مغربی اور شمال مشرقی شام کے ان علاقوں میں رہتے ہیں۔

اس دوران تقریباً 50 لاکھ سے زیادہ مہاجرین، جن میں زیادہ تر ہمسایہ ممالک میں رہتے ہیں نے اپنے حق رائے دہی سے پرہیز کیا ہے۔

امریکی اور یورپی عہدیداروں نے بھی انتخابات کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف کی گئی ہے، اس کے علاوہ انتخاب میں بین الاقوامی نگرانی کا فقدان ہے اور یہ تمام شامی باشندوں کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔

شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہمود صباغ نے بدھ کے ڈالے گئے ووٹ کے نتیجے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسد نے 95.1 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

اسد کو دو امیدواروں سے علامتی طور پر مقابلے کا سامنا کرنا پڑا جن میں ایک سابق وزیر اور سابق حزب اختلاف کے رہنما تھے۔

شام میں تنازعے کے باعث پورا ملک تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ ملک میں لڑائی ختم ہوگئی لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی۔

شام میں 80 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پورا ملک معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ مقامی کرنسی آزادانہ زوال کا شکار ہوئی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.