شام کے مشرقی علاقوں میں بظاہر ایسی ایرانی اور روسی نقل و حرکت سامنے آئی ہے جس نے وہاں موجود امریکی افواج اور اس کی حلیف سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو شک و شبہے میں ڈال دیا ہے۔
العربیہ میں شائع امریکی وزارت دفاع کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں شامی حکومت اور ایران کی ہمنوا ملیشیاؤں کی سرگرمیوں کا پتہ لگایا گیا ہے۔ یہ ملیشیائیں ملک کے مشرق میں مقامی قبائل کے ساتھ تعلقات بنا رہی ہیں تا کہ وہاں امریکی وجود کو کمزور کرنے کے واسطے شورش برپا کر سکیں۔ اسی طرح بین الاقوامی افواج اور ایس ڈی ایف پر حملوں کی حمایت کی جا سکے۔
عربی روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق کانگریس کے حوالے کی جانے والی مذکورہ انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران، روس اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ علاقے میں اپنا مستقل عسکری اور اقتصادی وجود محفوظ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ایرانی موجودگی ماسکو کی حریف بن گئی ہے جو شام میں اقتصادی مواقع اور طویل المیعاد نفوذ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
گذشتہ 20 روز کے دوران میں مذکورہ ملیشیاؤں نے دوسری مرتبہ اپنی عسکری کمک علاقے میں پہنچائی۔ شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد کے مطابق اس اقدام کا مصدقہ مقصد معلوم نہیں ہو سکا۔
ادھر بین الاقوامی اتحاد نے ان زیر گردش الزامات کی تردید کی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوج شام میں تیل کی چوری میں ملوث ہے۔ اتحاد کے ترجمان وائن میروٹو نے گذشتہ روز کہا کہ ''سیرین ڈیموکریٹک فورسز شام کے شمال مشرق میں پٹرولیم کے اہم انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کی ذمے دار ہیں تا کہ داعش تنظیم کو اس ان اہم وسائل اور آمدنی کے ذریعے تک پہنچنے سے روکا جا سکے''۔
واضح رہے ک روس اور ایران کے شام میں متعدد مفادات ہیں۔ اسی طرح حزب اللہ ملیشیا جس کو اپنی عسکری کمک منقطع ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کمک کی سپلائی لائن شام کے کئی علاقوں سے گزرتی ہوئی لبنانی سرحد تک پہنچتی ہے۔
واضح رہے کہ ماسکو 2011 میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے طرطوس اور دیگر شہروں میں بحری بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کی غرض سے کئی طویل المیعاد سمجھوتے کر چکا ہے۔ اس کے مقابل وہ دمشق حکومت کو برسوں تک حمایت جاری رکھے گا۔
(یو این آئی)