سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 فروری کو دیے گئے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر جلد سماعت کی استدعا مسترد کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قائد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے العزیزیہ کرپشن کیس میں سزا کے خلاف طبی بنیادوں پر ضمانت دینے کی درخواست کی تھی جو 25 فروری کو مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ میں یہ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ہی ایک علیٰحدہ درخواست بھی جمع کروائی گئی تھی جس میں اس کی 6 مارچ کو جلد سماعت کی گزارش تھی۔
تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جلد سماعت کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ نہیں دی جاسکتی اور کارروائی معمول کے مطابق ہی کی جائے گی۔
اس سلسلے میں اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ نواز شریف کے وکلا کا پینل جلد سماعت کی مسترد شدہ درخواست کو چیلنج یا اس سلسلے میں دوسری درخواست دائر کرسکتا ہے۔
اپنی درخواست میں میاں نواز شریف نے یہ موقف اپنایا تھا کہ انہیں سزا اور جیل میں قید ہونے کے باوجود اپنے مرضی کے معالج سے علاج کروانے کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 فروری کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خرابی صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اس کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ جب بھی انہیں خرابیء صحت کی شکایت ہوئی انہیں وقتاً فوقتاً علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ درخواست گزار کو وہ تمام بہترین ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔
تاہم نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین کی دفعہ 9 کے تحت زندگی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ پاکستان پرزنر رولز 1978 کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو انکی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت کو مسترد کیا جائے۔
نواز شریف کی جانب سے دائر درخواست میں خصوصی میڈیکل بورڈز کی تشخیص کا بھی ذکر کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں امراضِ قلب و شریان، ذیابطیس، ہائپرٹینشن، گردے کے مسائل وغیرہ لاحق ہیں۔