ترک نشریاتی ادارے اناطولو کی رپورٹ کے مطابق مملکت کے اقوامِ متحدہ کے لیے مستقل مندوب عبداللہ المعلمی نے روزنامہ عرب نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ریاض عرب امن اقدام Arab initiative Proposal for Peace کے حوالے سے پُرعزم ہے۔
یہ اقدام 1967 میں قبضہ کیے گئے تمام علاقوں سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بدلے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو کہتا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔
ذرائع کے مطابق عبداللہ المعلمی نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب کی سرکاری اور حالیہ پوزیشن یہ ہے کہ اسرائیل جتنی جلدی 2002 میں پیش کردہ عرب امن اقدام Arab initiative Proposal for Peace کے عناصر پر عملدرآمد کرے ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات Saudi-Israeli relations معمول پر لانے کو تیار ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب اسرائیل اس اقدام پر عملدرآمد کرلے گا اسے نہ صرف سعودی عرب بلکہ اسلامی تعاون تنظیم کے تمام 57 ممالک اور پوری مسلم دنیا تسلیم کرلے گی۔
مندوب نے کہا ہے کہ ’وقت درست یا غلط کو تبدیل نہیں کرتا، اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ غیر قانونی ہے چاہے وہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو‘۔
یہ بھی پڑھیں:
اسرائیل اور سعودی عرب تعلقات فلسطین اور مشرق وسطی کے حق میں: امریکہ
امریکہ، اسرائیل اور سعودی ایک ہی ہیں: حسن روحانی
گزشتہ ماہ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ تقریباً 20 امریکی یہودی رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں سینیئر عہدیداروں سے ملاقات کی۔ وفد نے جن عہدیداروں سے ملاقات کی ان میں 6 حکومتی وزرا اور سعودی شاہی گھرانے کے سینیئر نمائندے بھی شامل تھے، ملاقات کا مقصد ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے امکانات پر نظرِ ثانی کرنا تھا۔
سعودی عرب نے متعدد دفعہ اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے عرب پیرامیٹرز کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے جس کا اظہار 2002 کے سعودیہ کے تجویز کردہ عرب امن اقدام میں کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا اور 1980 میں پورے شہر کا الحاق کرلیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
یاد رہے کہ مصر اور اردن کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا ملک متحدہ عرب امارات تھا۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے جبکہ حکومتی سطح پر بینکنگ، کاروباری معاہدوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طویل مدت سے جاری بائیکاٹ کو ختم کریں گے۔
یو این آئی