عراقی پارلیمان کے انسانی حقوق کمیشن نے 'منگل سے جاری احتجاجی مظاہروں میں 93 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ تین ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کمیشن نے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے 540 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں تقریباً 200 افراد ابھی تک زیر حراست ہیں۔
ہزاروں عراقی شہری دارالحکومت بغداد اور دوسرے شہروں میں بے روزگاری، بنیادی سہولیات کے فقدان اور سرکاری حکام کی بدعنوانیوں کے خلاف سراپا احتجاج کررہے ہیں۔
دریں اثناء عراقی حکومت نے بغداد میں کل سے دن کا کرفیو ہٹا دیا ہے لیکن بڑے چوکوں کی جانب شاہراہیں بدستور بند ہیں تا کہ مظاہرین ان مصروف علاقوں کی جانب احتجاج کے لیے نہ جاسکیں۔
رپورٹ کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو بھی بغداد میں مظاہرین پر فائرنگ کی تھی۔ عراقی حکومت نے انٹرنیٹ خدمات کو مکمل طور پر بند کردیا ہے تاکہ مظاہرین ایک دوسرے سے رابطہ نہ کرسکیں اور سکیورٹی فورسز کے تشدد کی تصاویر یا ویڈیوز پوسٹ نہ کرسکیں۔ حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے بھی عوام کے غیظ وغضب میں اضافہ ہواہے۔
بااثر شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آواز سنی جارہی ہے۔
انھوں نے آج پارلیمان کا اجلاس بھی طلب کیا ہے تاکہ روزگار کے نئے مواقع کی تخلیق اور سماجی بہبود کے بارے میں اسکیموں پر غور کیا جائے گا۔
وہیں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور عراق میں خصوصی ایلچی جینین ہینس پلاسشائرٹ نے ملک میں گذشتہ پانچ روز سے جاری احتجاجی مظاہروں میں تقریباً 100 افراد کی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس خونریزی کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔