اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 75 ویں اجلاس میں فلسطین کے صدر محمود عباس نے خطاب کیا۔ انھوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے عرب ممالک (مصر،بحرین اور متحدہ عرب امارات) کے حالیہ فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ سے اگلے برس بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔
محمود عباس نے کہا ہے کہ 'حقیقی امن عمل شروع کرنے کے لئے اگلے برس کے اوائل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے، تاکہ آپس میں قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے'۔
جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران عباس نے عالمی برادری کو امن عامہ کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'مسجد اقصیٰ ہماری وراثت ہے۔ اس کا تحفظ اور استعمار سے حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، کوئی بھی اس پر اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ نہیں کرسکتا'۔
واضح رہے کہ 14 سمتبر 2020 کو امریکی مصالحت کے ذریعے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں معاہدہ ہوا، جس کے بعد ایک اور عرب ملک بحرین نے بھی 'امن معاہدہ' اور اسرائیل سے تعلقات کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد فلسطینی عوام اس معاہدہ کی مسلسل مخالفت کررہے ہیں۔
فلسطینی مقتدرہ کے صدر محمود عباس نے اس ضمن میں اپنے خطاب میں امریکہ پر تنقید کی ہے اور فلسطینی عوام کے جذبات کی نمائندگی کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور گذشتہ معاہدوں پر مبنی کثیر جہتی امن عمل پر زور دیا ہے۔
انہوں نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے کو بھی مسترد کردیا ہے۔
عباس نے اپنی تقریر میں کہا کہ 'وائٹ ہاؤس میں ہوئے معاہدہ پر دستخط بین الاقوامی قانون کے تحت ایک منصفانہ اور پائیدار حل کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے'۔
آخر میں انھوں نے کہا ہے کہ 'ہم سر نہیں جھکائیں گے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہم سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اور ہم فتح حاصل کریں گے'۔