ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے، خلیجی ممالک سے خبریں آرہی ہیں کہ ان ممالک میں طبی، آئیسولیشن اور قرنطینہ کی ناکافی سہولیات ہیں۔ ایسی اطلاعات کی وجہ سے ان ممالک میں مقیم بھارتی شہریوں سے متعلق تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ خلیجی ممالک میں فی الوقت نوے لاکھ سے زائد بھارتی شہری کام کررہے ہیں۔ جبکہ صرف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں اس وقت تین لاکھ مزدور پیشہ ور تارکین وطن موجود ہیں۔ خلیجی ممالک نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے شہریوں کو واپس لے جانے کا بندوبست کرے۔ یہ معاملہ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیان نے بھی وزیر اعظم مودی کے نام اپنے حالیہ خط می اٹھایا تھا۔ کیرالا کے سب سے زیادہ شہری خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔
سوال: خلیجی ممالک میں مقیم تارکین وطن کو پہلے ہی ایک طویل عرصے سے طبی سہولیات سے جڑے مسائل کا سامنا ہے۔ وبا کی وجہ سے کس حد تک انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے؟
جواب: مختلف خلیجی ممالک، خواہ سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات میں مختلف قوائد رائج ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی ملک میں طبی سہولیات کے حوالے سے کوئی انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ گنے چنے واقعات رونما ہوئے ہوں۔ لیکن عمومی طور پر صورتحال ایسی نہیں ہے۔ اس وقت ان تمام ممالک کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو مطلوبہ طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے پر عزم ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ چاہتے ہوں گے کہ ان ممالک میں مقیم بیرونی لوگ، جو یہاں پھنسے ہوئے ہیں یا اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں وہ اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں۔ اس وقت پوری دُنیا میں معاشی اور صحت سے جڑا بحران پیدا ہوگیا ہے اور خلیجی ممالک بھی اس کے اثرات سے مبرا نہیں ہیں۔ ہر ملک اس صورتحال کو اپنے طور سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔
سوال: اطلاعات کے مطابق خلیجی ممالک میں نرسیں اور چھوٹے درجے کی تجارت سے جڑے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وبا سے متاثر ہوچکی ہے۔ زیادہ تر مائیگرنٹ مزدور بھارت سے منگائی گئیں سستی ادویات استعمال کررہے ہیں۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیان نے اس بارے میں وزیر اعظم مودی کو لکھا ہے۔ بھارت سرکار خلیجی ممالک میں اپنے لوگوں کو درپیش ادویات کی قلت کو دور کرنے کےلئے کیا اقدامات کرسکتی ہے؟
میں یہی کہوں گا کہ اپنے سفارتکاروں اور قونصل جنرلز کے ساتھ رابطہ کیا جائے۔ وہ اپنے طور سے لوگوں کی مدد کرنے کی بھر پور کوششیں کررہے ہیں۔ انہوں نے ان ممالک میں بھارتی شہریوں کی مقامی تنظیموں کو متحرک کیا ہوا ہے۔ وہ ان ممالک کی حکومتوں کےساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ چونکہ ان ممالک میں بھارتی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لئے یہ بنیادی طور پر ان ممالک کی حکومتوں اور ان کمپنیوں ،جن کے ساتھ یہ لوگ کام کررہے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں۔ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو سفارتخانے مداخلت کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت بھی ہمارے سفارتخانے اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے رات دن اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔
سوال: متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ ان ممالک پر سخت پابندیاں عائد کرے گا جو خلیجی ممالک سے اپنے شہریوں کو واپس لے جانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے۔ اس رویہ کی وجہ سے مستقبل میں دو طرفہ تعلقات کس حد تک متاثر ہوجائیں گے؟ بھارت کب تک خلیج سے اپنے شہریوں کو نکال لائے گا؟
براہ مہربانی پہلے یہ دیکھیں کہ یو اے ای کی سرکار نے اصل میں کہا کیا ہے۔ اور اس نے جو کچھ بھی کہا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے؟ ہمارا سفارتخانہ مستقل طور پر وہاں کی سرکار کے ساتھ رابطے میں ہے۔ متحدہ عرب امارات میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ بہت کم لوگوں پر مشتمل ایک طبقہ ہے ان لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔ در اصل یہ لوگ سیاحتی ویزے پر یہاں آئے تھے۔ دوسرا طبقہ اُن لاکھوں لوگوں پر مشتمل ہے، جو یہاں کام کررہے ہیں اور ان کے پاس ورک ویزے ہیں۔ یو اے ای سرکار نے اُن لوگوں کو واپس بھیجنے کی بات کہی ہے، جن کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی ہے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے خط میں خلیجی ممالک میں پھنسے اُن لوگوں کو واپس لانے کی بات کی ہے، جن کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔
سوال: اطلاعات کے مطابق بعض ورکرز کو مقفل رکھا گیا ہے۔ انہیں یا تو الگ تھلگ رکھا گیا ہے یا پھر بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں محصور کردیا گیا ہے۔ کیا یہ ان کے لئے خطرناک ثابت نہیں ہوسکتا ہے؟
خلیجی ممالک میں ہمارے نوئے لاکھ سے زائد شہری ہیں۔ عمومی طور پر ایک ائر کرافٹ میں ایک سو اسی لوگوں کو بیک وقت سوار کیا جاسکتا ہے۔ اب آپ خود حساب لگا کر بتائیں کہ ہمیں دس لاکھ لوگوں کو ہی واپس لانا پڑے تو اسکے لئے کتنی فلائٹس درکار ہوں گی؟ اور جب ہم انہیں واپس لائیں گے تو انہیں قرنطینہ میں کہاں پر رکھیں گے؟ کیا ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ خلیجی ممالک میں کورونا وائرس کی جو نسل پھیلی ہوئی ہے، وہ وہی ہے، جو بھارت میں موجود ہے؟ اپنے شہریوں کو ملک واپس لانے سے پہلے ہمیں ان نازک پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔ حکومت بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے کہ آپ اس وقت جہاں پر ہیں، وہیں ٹھیک ہیں۔ اپنے شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کے معاملے میں بھارت کا ریکارڈ کئی پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہا ہے۔ چونکہ میں نے یو اے ای میں اپنی خدمات دی ہیں، اس لئے میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں بھارتی شہریوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہاں نوکریاں ختم ہورہی ہیں۔ کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی بدحالی پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن ہم نے اس سے بھی برے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن اس وقت ہم خوف پیدا نہیں کرنا چاہتے ہییں۔ کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سوال: بھارت کو خلیجی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں کے واپس گھر لوٹنے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نوکریاں ختم ہوجانے کے کیا اثرات ہوں گے؟
اس کے اثرات تو ضرور ہوں گے۔ کیرالا اور خیلجی ممالک کا بہت گہرا تعلق ہے لیکن بہار، یوپی اور تلنگانہ جیسی ریاستوں سے بھی بہت سارے لوگ خلیجی ممالک میں کام کررہے ہیں۔ گزشتہ سال صرف یو اے ای سے ہی 17 بلین امریکی ڈالر کا ترسیل زر ہوا تھا۔ جبکہ پورے خلیج سے پچاس بلین ڈالر کا زر ترسیل آیا تھا، جو بھارت کے جی ڈی پی کا تقریباً دو فیصد ہے۔ یہ ممکن ہے کہ خلیجی ممالک میں نوکریاں ختم ہوجائیں گی اور لوگوں کو گھر واپس لوٹنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں زر ترسیل میں بھاری کمی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن کیا یہی صورتحال ہم بھارت کے اندر بھی نہیں دیکھ رہے ہیں؟ ہم نے دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں نوکریاں ختم ہوجانے کے بعد دیہات کے لوگوں کو واپس گھر لوٹتے ہوئے نہیں دیکھا ہے؟ دراصل یہ سب کچھ اس وقت جاری تباہی کے نتائج ہیں، جس کا سامنا پوری دُنیا کو کرنا پڑ رہا ہے۔
سوال: اس بحران سے نمٹنے کےلئے جی 20 کی تجاویز کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ تجاویز قابل عمل ہیں؟
ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے زمینی سطح پر بہت کام کرنا ہوگا۔ اس وقت بین الاقوامی کارڈی نیشن کے لئے کوششیں ہورہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک کو صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنے آپ پر ہی انحصار کرنا پڑرہا ہے۔
سوال: عالمی ادارہ صحت(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کو وبا سے نمٹنے میں ناکامی پر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ جبکہ وبا سے متعلق چین کے کردار پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو عالمی ادارہ صحت اور چین کا احتساب کرنا چاہیے؟
اس میں کوئی شک نہیں۔ حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کی موجودہ قیادت کو اثر انداز کیا ہے۔ چین کو نومبر 2019 میں ہی پتہ چلا تھا کہ وبا کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ دسمبر میں چین کے میڈیا نے بتایا کہ وبا پھیل رہی ہے۔ لوگوں نے اس کے بارے میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس سال بارہ جنوری کو بھی چین اور عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہے یا نہیں۔ فلائٹس کے آنے جانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ہمیں اس کے دو پہلو دیکھنے ہوں گے۔ ایک یہ کہ عالمی ادارہ صحت اہم بین الاقوامی تنظیم ہے جو آج بھی کورونا وائرس کے خلاف ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس ادارے کی قیادت نے کیا رویہ اختیار کیا۔ یہ خدشہ صرف عالمی ادارہ صحت سے ہی متعلق نہیں ہے بلکہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے حوالے سے بھی ہے۔ کیونکہ چین بین الاقوامی تنظیموں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ تاہم ابھی تک ہمیں نہیں لگ رہا ہے کہ کوئی معتبر بین الاقوامی تنظیم چین کے زیر اثر آگئی ہے۔
سوال: آپ نے خلیج میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کووِڈ19 سے نمٹنے کے اقدامات حج کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں؟
سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے فوری طور پر کئی اقدامات کئے ہیں۔ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات منسوخ کئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک میں اذان میں ’نماز کے لئے آجاؤ‘ کے بدلے اب ’’گھروں میں بیٹھ جاؤ‘ کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں۔ خواہ حج ہو یا عمرہ، اس طرح کے اجتماعات بند کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ جنگوں کے دوران بھی حج کی ادائیگی ہوتی رہی ہے۔ اس لحاظ سے سعودی عرب کا یہ کہنا کہ اس سال حج نہیں ہوگا جو کہ ایک بڑا فیصلہ ہے۔
سوال: آنے والے مہینوں میں حکومت کو کن اقتصادی شعبوں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے؟
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’جان بھی چاہیے جہاں بھی چاہیے‘۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیس اپریل کے بعد کچھ حد تک تناسب پیدا کیا جائے گا۔ یعنی لاک ڈاون رہے گا لیکن اقتصادی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ لوگوں کے ایک بڑے طبقے کا انحصار روز مرہ کے کام کاج پر ہے۔ اس لئے یہ حکومت کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔لیکن ہمیں بہرحال سپلائی چین میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہماری معیشت ایک جسم کی مانند ہے۔ اگر جسم کا کوئی حصہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کررہا ہے تو باقی جسم پر اس کے اثرات مرتب ہونگے۔ اس لحاظ سے کچھ حد تک معیشت کی بحالی کے لئے سپلائی چین کو بحال کرنا ضروری ہے۔