مرکز اطلاعات و نشریات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں 80 کے قریب فلسطینیوں کے مکانات مسمار کردئیے ہیں۔
حکام اور عینی شاہدین نے بدھ کے روز کہا کہ ایک غیر معمولی آپریشن میں گاوں کی پوری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج کے بلڈوزرز نے غربِ اردن میں طوباس نامی شہر کے قریب خیمے، شیڈ، پورٹیبل بیت الخلا اور شمسی پینل سمیت کئی چیزوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔
فلسطین کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے اسرائیلی فوج پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے حمصُ البقیہ گاؤں کو مکمل طور پر مِسمار کردیا اور تقریبا 80 افراد کو بے گھر کردیا۔
بتادیں کہ غَربِ اُردن مغربی کنارے کے علاقے میں واقع ہے جو اسرائیل کی فوج کے زیر کنٹرول ہے۔ یہ علاقہ اصلاً فلسطینیوں کا ہے، لیکن سنہ 1967 سے مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
اسرائیلی قوانین کے تحت فلسطینی اجازت کے بغیر اس علاقے میں کوئی بھی گھر نہیں بناسکتے۔ فلسطینیوں کو عام طور پر انکار کردیا جاتا ہے اور انہدام عام ہے۔
عبد الغنی آوڈا کے مطابق 'اسرائیلیوں نے جو گاڑیاں اور بلڈوزر لے کر آئے تھے۔ ہمارے گھر خالی کرنے کے لئے 10 منٹ کی مہلت دی۔ پھر انہوں نے بلڈوزر شروع کردیا'۔
متاثرہ فلسطینی کے بھائی محمد داود نے بتایا ہے کہ 'اسرائیل تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔ میرا بھائی اسرائیل میں قید ہے'۔
داود نے کہا ہے کہ 'آج انہوں نے میرے خاندان کو بے گھر کردیا، جہاں چھ افراد مقیم تھے۔ اسرائیلی فوج نے گھر کو منہدم کردیا اور گھر کے چاروں طرف زیتون کے درخت اکھاڑ دیئے'۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کا کنبہ نسلوں سے اس علاقے میں رہتا ہے اور انہوں نے اسرائیل پر یہ الزام لگایا کہ وہ غرب اردن کو اپنی فلسطینی آبادی کو خالی کرنے کی کوشش کر رہا ہے'۔
مسمار کرنے والے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے بی اسٹیلیم نے کہا ہے کہ رواں سال اب تک اسرائیلی انہدام کے نتیجے میں مغربی کنارے میں 798 فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔
اس ادارہ نے اس طرح کے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیا، اسی سال 2016 کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد ہے۔