انٹیلی جنس کے ایک اعلیٰ افسر لاہو رطالبانی نے بتایا کہ دہشت گرد اب القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ سرگرم اور خطرناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’داعش کے پاس بہتر ٹیکنالوجی، بہتر حکمت عملی اور اپنے کام کو پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ پیسہ ہے۔
رطالبانی نے کہا کہ ’وہ گاڑی، ہتھیار، خوراک کی فراہمی اور ساز و سامان خریدنے کے قابل ہیں۔ تکنیکی طور پر وہ زیادہ سمجھدار ہیں۔ ان کا خاتمہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے وہ القاعدہ کی طرح ہیں‘ ۔
بی بی سی کے مطابق عراقی کردستان کی دو خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی کے سربراہ رطالبانی نے کہا کہ ایک الگ طرح کا داعش سامنے آیا ہے جو اب کسی بھی علاقے کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ داعش دہشت گرد عراق کے حمرين پہاڑوں میں زیر زمین ہیں یا پناہ لے رکھی ہے۔
انٹیلی جنس افسر نے دعوی کیا ہے کہ ’حمرين پہاڑ اب داعش کا گڑھ ہے جہاں چھپنے کے کئی مقامات کے ساتھ ساتھ غاروں والے پہاڑ ہیں۔ عراقی فوج کے لیے اس پہاڑی حدود کو قابو کرنا بہت مشکل ہے‘۔
انہوں نے آگاہ کیا کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں موجودہ غیر یقینی صورتحال سے داعش کی پرورش ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ملک میں سیاسی بدامنی جاری رہی تو یہ داعش کے لیے جنت یا کرسمس جلدی آسکتی ہے ۔