عراقی کمہار جمال زین العابدین کی دکان مٹی کے برتنوں سے بھری ہوئی ہے لیکن خریدار نہیں ہیں۔ کورونا وائرس وبائی بیماری کے بعد سے ان کا کاروبار مفلوج ہوگیا ہے۔
اب یہ دکاندار کاروبار کو بند کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ کاروبار ان کو وراثت میں ملا ہے۔ زین العابدین کا خاندان گزشتہ دو سو سالوں سے نقاشی کئے گئے مٹی کے برتن کو تیار کر فروخت کرتا ہے۔
زین العابدین کا کہنا ہے کہ ''کورونا وائرس کی وجہ سے آج 103 دن ہوچکا ہے جب سے میرا کاروبار بند ہے۔ میں ہر روز جوڑتا ہوں اور لکھتا ہوں کہ میں نے کیا کیا۔ میں ہر روز نوٹ تیار کرتا ہوں کہ مجھے کتنا فائدہ ہوا اور کتنے کا نقصان ہوا ہے۔''
65 سالہ شخص کی دکان بغداد اور کرکوک کے درمیان مرکزی سڑک پر دقق میں واقع ہے۔
بغداد اور دیگر جنوبی شہروں کے لئے سفر کے دوران راستے میں خریدار اس دکان سے سامان خریدتے تھے لیکن کورونا وائرس کے باعث نقل و حرکت پر پابندی سے یہاں کوئی نہیں پہنچ رہا ہے۔
زین العابدین کا کہنا ہے کہ ''سڑک بند ہونے کی وجہ سے میرا سامان فروخت نہیں ہو رہا ہے۔ حکومت اسے نہیں خریدتی اور میں اسے باہر کے ممالک میں اکسپورٹ نہیں کر سکتا ہوں۔''
مٹی کے برتن کی قیمت اس پر کئی گئی نقاشی اور اس کے سائز پر طئے کی گئی ہے۔ یہاں پانچ ہزار عراقی دینار یا چار ڈالر سے لیکر پچاس ہزار عراقی دینا یا بیالیس ڈالر تک کا سامان موجود ہے۔
کاروبار کے مفلوج ہونے کے بعد اب زین العابدین اسے بند کر کسی دوسرے شہر میں مزدوری کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
زین العابدین کا تعلق کاکئی مذہب سے ہے، جسے یارسان بھی کہا جاتا ہے۔ اس مذہب کی شروعات ایران سے بتائی جاتی ہے۔
کاکئی ایران میں اقلیتی مذہب ہیں، جو کرکوک، سلیمانیایہ اور نینوی کے میدانی علاقوں میں آباد ہے۔