خبر رساں ایجنسی مہر کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی نے اتوار کے روز کہا،'ہم ہمیشہ سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں دھمکانا بند کریں اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پابندیوں ہٹائیں۔ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔'
اس سے قبل جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے بین الاقوامی جوہری معاہدے کے تحت مشترکہ کارروائی منصوبہ کے تمام ارکان کی میٹنگ بلانے کا اعلان کیا۔ ان ممالک کے مطابق ایران پر امریکہ کے مسلسل پابندی لگانے اور ایران کے اس معاہدے کے التزامات کو توڑنے کی وجہ سے اس پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔
روحانی نے کہا کہ ایران نے اپنی اسٹریٹجک تحمل کی پالیسی کو تبدیل کرکے جوابی کارروائی کی پالیسی اپنا لی ہے۔
گذشتہ ہفتے ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدے کے تحت یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کر لیا ہے۔ ایران نے 3.67 فیصد کی مقررہ حد سے تجاوز کر کے اپنا یورینیم اضافہ 4.5 فیصد تک کر لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ خلیج عمان میں گذشتہ ماہ آبنائے ہرمز کے قریب دو تیل ٹینکروں الٹیئر اور كوككا كریجيس میں دھماکے کے واقعہ اور ایران کی طرف سے امریکہ کے انٹیلی جنس ڈرون طیارے کو مار گرانے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال مئی میں ایران جوہری معاہدے سے اپنے ملک کو الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات میں کافی تلخی آگئی ہے۔ اس جوہری معاہدے کے التزامات کو نافذ کرنے کے سلسلے میں بھی شک و شبہات کی حالت بنی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2015 میں ایران نے امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران نے اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔