ایران نے باضابطہ طور پر اپنی جوہری تنصیبات کے اچانک معائنہ پر پابندی لگا دی ہے جس سے یورپی ممالک اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ معاشی پابندیاں ختم کر دیں اور سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کریں۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ آج سے قانون نافذ العمل ہوگیا ہے۔ انھوں نے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’ایران اپنی جوہری تنصیبات کی نگرانی کی فوٹیج روزانہ اور ہفتہ وار بنیاد پر شیئر نہیں کرے گا۔ قبل ازیں وہ ماضی میں یہ فوٹیج شیئر کرتا رہا ہے۔ ہم نے آئی اے ای اے کو قانون کے نفاذ سے متعلق مطلع کر دیا ہے'۔
خیال رہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ہم اپنے جوہری پروگرام کے معاملہ میں امریکہ کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کرسکتا ہے لیکن انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ایران جوہری اسلحے نہیں بنانا چاہتا ہے۔
ان کے اس اعلان سے ایک روز قبل ویانا میں قائم اقوام متحدہ کے تحت آئی اے ای اے نے ایران کے ساتھ ایک ڈیل طے پانے کی اطلاع دی تھی۔ اس کے تحت عالمی ادارے کے معائنہ کار آئندہ تین ماہ تک ایران کی جوہری تنصیبات کا ضروری معائنہ کرسکیں گے۔ اس سے پہلے ایران نے کہا کہ وہ آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے اچانک معائنہ کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں مردہ خاتون کو پھانسی دی گئی
وہیں، وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پساکی نے میڈیا سے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ یورینیئم افزودگی کو روکنے اور مذاکرات پر راضی ہونے سے قبل امریکہ ایران کے اوپر عائد پابندیاں نہیں ہٹائے گا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی سنہ 2018 میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور اس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کر دی تھیں۔ اس کے ردعمل میں ایران نے جوہری سمجھوتے کی شرائط کی مرحلہ وار پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس نے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کرنا شروع کر دیا تھا۔