غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے رواں ہفتے سمندری، زمینی اور فضائی حملے کیے جبکہ حماس نے اسرائیل پر سیکڑوں راکٹ فائر کیے ہیں۔
یہ اسرائیل اور حماس کے مابین 2008 کے بعد سے سب سے بڑے تنازع کا چوتھا دور ہے۔ اس میں اس علاقے میں 2 ملین سے زائد فلسطینی باشندوں کو اموات اور تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تشدد کے تازہ معاملوں نے جنگ کا موحول تیار کر دیا ہے اور بین القوامی برادری کی نظر غریب آبادی والی غزی کی پٹی کی جانب مبذول ہوئی ہے۔
غزہ کی پٹی اور مشرق وسطی کے تنازع میں اس جگہ پر ایک نظر۔
ایک تنگ کوسٹل اسٹرپ
اسرائیل اور مصر کے مابین سینڈویچ کی طرح دکھنے والا غزہ صرف 25 میل (40 کلومیٹر) لمبا اور چھ میل (10 کلو میٹر) چوڑا ہے۔ اسرائیل کے وجود یعنی 1948 سے قبل یہ برطانوی حکومت کے تحت چلنے والے فلسطین مینڈیٹ کا حصہ تھا۔
اسرائیل کے ذریعے غزہ پر قبضہ کئے جانے کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی یہاں سے بےدخل کر دئے گئے یا بھگا دئے گئے ہیں۔ غزہ کی آدھی سے زیادہ تقریباً 1.4 ملین آبادی مہاجرین اور ان کی اولادوں کی ہے۔
اسرائیل نے غزہ پر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ سن 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ تینوں ہی علاقوں میں اپنی آئندہ ریاست تشکیل پائے۔
پہلا فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت 1987 میں غزہ میں شروع ہوئی۔ اسی سال حماس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور بعد میں یہ دوسرے مقبوضہ علاقوں میں پھیل گئی۔ 1990 کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی اور اسے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔
حماس
دوسرے اور بہت بڑے پرتشدد بغاوت کے بعد اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے اپنی فوج اور یہودی بستیوں کو ہٹا لیا۔
اس کے اگلے سال حماس نے فلسطینی انتخابات میں زبردست فتح حاصل کی۔ اس سے فلسطینی صدر محمود عباس کی فتاح پارٹی کے ساتھ اقتدار کی جدوجہد کا آغاز ہوا، جس کا اختتام 2007 میں ایک ہفتہ کی جھڑپوں کے نتیجے میں ہوا جس نے غزہ پر کنٹرول حاصل کرلیا۔
حماس نے غزہ پر اسلامی قانون نافذ کرنے کے سلسلے میں بہت کم کام کیا ہے، جو پہلے ہی بہت قدامت پسند تھا۔ لیکن اس نے اختلاف رائے، سیاسی مخالفین کو گرفتار کرنے اور اس کی حکمرانی کے خلاف غیر معمولی مظاہروں کو پرتشدد طور پر دبانے کے لئے کوئی رواداری ظاہر نہیں کی ہے۔
عسکریت پسند گروپ تین جنگوں اور 14 سال کی ناکہ بندی کے ذریعے مستقل طور پر اقتدار میں رہا ہے۔
ناکہ بندی
حماس کے قبضے کے بعد اسرائیل اور مصر نے ناکہ بندی کردی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کو اسلحہ کی درآمد سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ ناکہ بندی اجتماعی سزا کی ایک قسم ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ حماس کے طویل عرصے سے چل رہے جھگڑوں کے ساتھ، بندشوں نے غزہ کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ اس علاقے میں 50 فیصد بے روزگاری، بجلی میں متواتر کمی اور نلکے کے آلودہ پانی سے مقامی باشندوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی پٹی میں 30 سے زائد اسکولوں کو نقصان پہنچا
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس اور فلسطینی باشندوں کے درمیان جھڑپ
یہ بھی پڑھی: یوم القدس کے موقع پر اسرائیلی پولیس اور فلسطینی نوجوانوں میں جھڑپ، 136 زخمی
یہ بھی پڑھیں: ایران نے مسلم دنیا سے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی اپیل کی
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے میں 43 فلسطینی ہلاک، 300 سے زائد زخمی
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے میں 1330 سے زیادہ فلسطینی باشندے زخمی
جنگیں
حماس اور اسرائیل نے تین جنگیں اور کئی چھوٹی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اب تک کی بدترین جنگ 2014 میں ہوئی تھی، جو 50 دن تک جاری رہی اور اس میں تقریباً 2،200 فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں نصف سے زیادہ عام شہری تھے۔ جبکہ اس دوران 63 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل کے ذریعے غزہ پر فضائی حملوں نے ایک بڑی تباہی کو جنم دیا ہے، جس کے بعد ہزارو لوگ امریکی اسکولوں اور دیگر پناہ گزیں کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور وہ حماس پر غزہ کے باشندوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
فلسطینی عسکریت پسندوں نے ہزاروں راکٹ اسرائیل پر فائر کیے ہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی میزائل دفاع نے ان میزائل کو تباہ کر دیا یا کھلے علاقے میں اسے موڑ دیا لیکن اس نے وسیع پیمانے پر خوف پیدا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان میزائل کے مارنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، اس دوران کچھ میزائل تل ابیب اور یروشلم جیسے میٹرو پولیٹن علاقے تک پہنچے ہیں۔
اس سال کے شروع میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ توقع ہے کہ 2014 کی جنگ میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
آئی سی سی نے بھی تازہ ترین تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔