ترکی کی سرحد کے قریب شمال مغربی شام میں دوائیسات ڈیم اب خشک زمیں کا حصہ بن چکا ہے، جہاں ہمیشہ پانی ہوا کرتا تھا۔
ڈیم میں ذخیرہ ہونے والا پانی قریبی قصبے میں مقامی کسانوں کو ہفتے پہلے تک فراہم کیا جاتا تھا، لیکن اب یہ پوری طرح خشک ہو گیا ہے۔
دوائیسات ڈیم کے ایک انجینئر مہر الحسین کا کہنا ہے کہ بہت سے عوامل ہیں جو قلت کا باعث بنے ہیں۔
آبپاشی کے نیٹ ورکس کو آبی ذخائر سے پانی فراہم کرنے والی مرکزی پائپ لائن کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پانی کا رساو ہوا ہے۔
مہر الحسین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں کم بارش نے بھی پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا کیا ہے، جس سے ڈیم "تین دہائیوں میں پہلی بار" خشک ہو گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں کسان جو اپنی فصلوں کو پانی دینے کے لیے ڈیم پر انحصار کرتے تھے، مشکلات کا شکار ہیں۔
ان کسانوں میں محمد حج حسن بھی شامل ہیں جن کی پانی کی فراہمی رکنے کے باعث بینگن اور کالی مرچ کی فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔
محمد حج حسن کا کہنا ہے کہ "میں ایک کسان ہوں اور میرے پاس ایک فارم ہے جہاں میں سبزیاں، کالی مرچ اور ہر قسم کی سبزیاں لگاتا ہوں۔ میں دوائیسات ڈیم کے پانی پر انحصار کرتا ہوں۔ ہم نے تقریباً 5 دونم بینگن اور تقریباً 1.5 دونم کالی مرچ لگائی۔ 15 ستمبر کو ڈیم سے پانی ملنا بند ہو گیا۔ اور اس نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا کیونکہ 15 دن بعد کالی مرچ اور بینگن نہیں اگیں گے اس لیے بینگن اور سبزیاں سب سوکھ گئے اور ہمیں بہت نقصان ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: پانی کی سطح کم ہونے سے شام کے شمال مشرقی خطے کو خطرہ
کیا نہر فرات میں پانی کی کمی شامی باشندوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے؟
بین الاقوامی امدادی گروپوں نے اگست میں خبردار کیا تھا کہ شام اور عراق میں بارش کی کمی اور خشک سالی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ریکارڈ کم پانی کی سطح کے باعث لاکھوں افراد کو بجلی اور خوراک تک رسائی سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔
دونوں ممالک میں 12 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہیں، جن میں شام کے 5 ملین افراد بھی شامل ہیں جو براہ راست دریائے فرات پر منحصر کرتے ہیں۔
امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 400 مربع کلومیٹر (154 مربع میل) زرعی اراضی کو خشک سالی کا سامنا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شمالی شام میں دو ڈیم، جو 30 لاکھ لوگوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں، جلد بند ہونے والے ہیں۔