ETV Bharat / international

مشرق وسطی میں بارود کے ڈھیر میں خطرناک حد تک اضافہ

ایک رپورٹ مظہر ہے کہ مشرق وسطی میں بارود کے ڈھیر میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

مشرق وسطی میں بارود کے ڈھیر میں خطرناک حد تک اضافہ
مشرق وسطی میں بارود کے ڈھیر میں خطرناک حد تک اضافہ
author img

By

Published : Mar 10, 2020, 1:50 PM IST

گزشتہ پانچ برسوں میں امریکی ہتھیاروں کی برآمدات کے آدھے حصے کا رخ جو مشرق وسطیٰ کی طرف تھا اس میں سے آدھا سعودی عرب پہنچا ہے جو اس کشیدہ حصے میں ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیش ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2015 سے 2019 تک عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 2010-2014 کے مقابلے میں 5.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سویڈنی محققین کے ہتھیاروں کی برامدات کا ایک دوسرا رخ یہ بھی دکھایا ہے کہ اس عرصے میں امریکی برآمدات میں جہاں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے وہیں روسی برآمدات میں 18 فیصد کی زبردست کمی آئی ہے۔

انسٹیٹیوٹ کے ایک اعلیٰ محقق پیٹر ویزمین کے مطابق ہتھیاروں کی یہ بڑی منتقلی مظہر ہے کہ ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں جنگی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ سے اس دوران شپمنٹ میں 23 فیصدکا اضافہ بتایا جاتا ہے، جس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ بڑھ کر 36 فیصد ہوگیا ہے۔

امریکا نے 2015 سے 2019 کے درمیان مجموعی طور پر 96 ملکوں کو بڑے ہتھیار مہیا کئے ہیں۔

کشیدہ خطے میں مبینہ طور پر ایران کا اثر ختم دیکھنے کو بے تاب سعودی عرب کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 14-2010 کے مقابلے میں 130 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ 19-2015 کے درمیان عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 12 فیصد حصہ سعودی عرب کا رہا۔

پیٹر ویزمین کےنزدیک مشرق وسطیٰ کو اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی برآمدات خطرناک ہے ۔ انتہائی تنازعات میں گھرےاس خطے میں ہتھیاروں کا زبردست ڈھیر مسلسل تشدد کا سامنا کرنے والوں میں ممکنہ طور پر کشیدگی اور بڑھا سکتا ہے۔

پیٹر ویزمین کے مطابق اگرچہ روس ہتھیاروں کی برآمدات میں امریکہ سے پچھڑ گیا ہے، باوجودیکہ وہ اس محاذ پر دوسرے نمبر پر ہے ۔ دنیا کا تیسرا بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک اب فرانس ہے جس کی بر آمدات کاعالمی سطح پر حصہ اب 7.9 فیصد بتایا جاتا ہے۔ متاثرہ خطے میں فرانس کا آدھے سے زیادہ ہتھیار مصر اور قطر خریدتے ہیں۔ چوتھے نمبر پر جرمنی ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں امریکی ہتھیاروں کی برآمدات کے آدھے حصے کا رخ جو مشرق وسطیٰ کی طرف تھا اس میں سے آدھا سعودی عرب پہنچا ہے جو اس کشیدہ حصے میں ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کاسب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیش ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2015 سے 2019 تک عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 2010-2014 کے مقابلے میں 5.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سویڈنی محققین کے ہتھیاروں کی برامدات کا ایک دوسرا رخ یہ بھی دکھایا ہے کہ اس عرصے میں امریکی برآمدات میں جہاں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے وہیں روسی برآمدات میں 18 فیصد کی زبردست کمی آئی ہے۔

انسٹیٹیوٹ کے ایک اعلیٰ محقق پیٹر ویزمین کے مطابق ہتھیاروں کی یہ بڑی منتقلی مظہر ہے کہ ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں جنگی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ سے اس دوران شپمنٹ میں 23 فیصدکا اضافہ بتایا جاتا ہے، جس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ بڑھ کر 36 فیصد ہوگیا ہے۔

امریکا نے 2015 سے 2019 کے درمیان مجموعی طور پر 96 ملکوں کو بڑے ہتھیار مہیا کئے ہیں۔

کشیدہ خطے میں مبینہ طور پر ایران کا اثر ختم دیکھنے کو بے تاب سعودی عرب کی ہتھیاروں کی درآمدات میں 14-2010 کے مقابلے میں 130 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ 19-2015 کے درمیان عالمی سطح پر ہتھیاروں کی برآمدات میں 12 فیصد حصہ سعودی عرب کا رہا۔

پیٹر ویزمین کےنزدیک مشرق وسطیٰ کو اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی برآمدات خطرناک ہے ۔ انتہائی تنازعات میں گھرےاس خطے میں ہتھیاروں کا زبردست ڈھیر مسلسل تشدد کا سامنا کرنے والوں میں ممکنہ طور پر کشیدگی اور بڑھا سکتا ہے۔

پیٹر ویزمین کے مطابق اگرچہ روس ہتھیاروں کی برآمدات میں امریکہ سے پچھڑ گیا ہے، باوجودیکہ وہ اس محاذ پر دوسرے نمبر پر ہے ۔ دنیا کا تیسرا بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک اب فرانس ہے جس کی بر آمدات کاعالمی سطح پر حصہ اب 7.9 فیصد بتایا جاتا ہے۔ متاثرہ خطے میں فرانس کا آدھے سے زیادہ ہتھیار مصر اور قطر خریدتے ہیں۔ چوتھے نمبر پر جرمنی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.