کابل: افغانستان میں طالبان اور فوج کے درمیان زور پکڑتی جھڑپ. بنیادی ڈھانچہ کی خراب حالت اور ہسپتال کی قلت کی وجہ سے عالمی وبا کورونا وائرس کی لہر بے قابو ہوتی نظر آرہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران افغانستان میں صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور حکومت کے بڑھتے ہوئے معاملات کے پیش نظر آکسیجن کی بروقت فراہمی کا چیلنج درپیش ہے۔ اسپتال کی بے حد قلت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اسپتال میں بیڈ دستیاب نہیں ہورہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزارت صحت کے ترجمان غلام داسیجی نذری نے بتایا کہ حکومت 10 صوبوں میں آکسیجن سپلائی پلانٹ لگا رہی ہے جہاں بعض علاقوں میں کووڈ-19 کیسز میں 65 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں یومیہ کیسز کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے، مئی کے اختتام پر یومیہ ڈیڑھ ہزار کیسز کے مقابلے میں اس ہفتے روزانہ 2300 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے وزارت صحت نے اسے بحران قرار دیا ہے۔
کورونا وبا پھیلنے کے بعد سے افغانستان میں ایک لاکھ ایک ہزار 906 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور 4 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں لیکن یہ عین ممکن ہے کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوں کیونکہ صرف ان لوگوں کی گنتی کی جا رہی ہے جن کی اموات ہسپتالوں میں ہوئی ہے اور وہ لوگ اس گنتی کا حصہ نہیں ہیں جن کی موت گھر پر ہوئی ہے۔
دریں اثنا افغانستان کو ہفتے کے روز ایران سے 900 آکسیجن سلنڈر موصول ہوئے، ایران نے گزشتہ ہفتے افغانستان کو 3 ہزار 800 سیلنڈر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پہلی کھیپ ایران کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی۔ افغانستان میں خالی سیلنڈر بھی ختم ہوچکے ہیں اور اسے گزشتہ ہفتے ازبکستان سے ایک ہزار سیلنڈر موصول ہوئے تھے۔
ادھر ہسپتال مریضوں کو محدود تعداد میں آکسیجن فراہم کررہا ہے، آکسیجن کے حصول کے لیے کوشاں افغان شہری دارالحکومت کابل میں آکسیجن فراہم کرنے والے چند اداروں کے دھکے کھا رہے ہیں اور خالی سیلنڈروں کو بھرنے کے لیے منت سماجت کررہے ہیں تاکہ ان کے عزیزوں کی جان بچائی جاسکے۔
ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عبد الواصی کی اہلیہ تقریباً 10 دن سے علیل ہیں اور وہ مشرقی کابل میں واقع نجیب صدیقی آکسیجن پلانٹ میں 45 لیٹر سلنڈر بھرنے کے لیے چار دن سے منتظر ہیں، آکسیجن پلانٹ کے مرکزی دروازے پر بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن میں سے اکثریت مردوں کی ہے، کچھ لوگوں نے اپنے خالی آکسیجن سلنڈروں کو گیٹ پر کھڑا کردیا جبکہ دیگر افراد نمبروں کی حامل پرچیوں کو ہاتھ میں لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کے لیے ہسپتال میں بستر نہیں تھے اور ان کی آکسیجن کی سطح 70 سے 80 کے آس پاس ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ جب وہ 45 سے 50 فیصد تک چلی جاتی ہے تو ہم آکسیجن لگا کر ان کو سانس لینے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق 5 فیصد سے زیادہ شرح سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکام وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ نہیں کررہی ہے، جس سے وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے، افغانستان میں ایک دن میں بمشکل 4 ہزار ٹیسٹ ہوتے ہیں اور اکثر اس سے بھی کم ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔