الکمالیہ اسکول کی 500 سالہ قدیم اینٹوں کی دیواریں آہستہ آہستہ برسوں کے جمع ہونے والے کوڑے سے بوسیدہ ہو کر اپنا وقار کھو رہی ہیں لیکن اب اسے درست کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔
فلسطین کے غزہ شہر کے پرانے کوارٹر کے مرکز میں واقع مملوک دور کی عمارت مسمار ہونے کے خطرے سے دوچار تاریخی ڈھانچے میں سے ایک ہے۔
ایک فنکار اور رضاکار عبداللہ الروزی نے بتایا کہ "ہم لوگوں نے سماج میں قدیم عمارتوں کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے الکمالیہ اسکول کو ایک فریم ورک کے طور پر شروع کیا ہے۔
سلطنت مملوک اور سلطنت عثمانیہ کے دور کی تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لئے الروزی اور دیگر فن کاروں نے ایک کیمپین شروع کیا ہے۔
سیاحتی عہدیداروں کے مطابق فلسطینی انکلیو کے پرانے حصے میں ان دوروں کے تقریباً 200 مکانات جزوی یا مکمل طور پر موجود ہیں۔ انہیں نئی شہری ترقی کے دوران نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں مسمار بھی کر دیا جا رہا ہے۔
غزہ کی پٹی چھوٹی ہے جہاں 20 لاکھ افراد صرف 300 مربع کلومیٹر (115 مربع میل) میں رہ رہے ہیں۔ ایسے میں ماہرین اور رضاکاروں کو خوف ہے کہ پچھلی صدیوں کے ڈھانچے ختم ہوجائیں گے۔
آبادی میں اضافہ، اسرائیل کے ساتھ تنازعہ اور حماس کی بدانتظامی غزہ کی پانچ ہزار سالہ تایخی نقوش کو مٹانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
اس دوران حماس بلڈوزروں نے ہاؤسنگ منصوبے کی راہ ہموار کرنے کے لئے 4،500 سالہ قدیم برونز ایج آبادی کے بڑے حصوں کو تباہ کردیا۔ یہ علاقہ قدیم مصر، لیونت اور میسوپوٹیمیا کو ملانے والے راستے پر واقع ہونے کے باعث کافی مشہور رہا ہے۔
موباڈیرون ان چنندہ تنظیموں میں سے ایک ہے جو غزہ شہر میں قدیم مقامات کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے لیکن یہ تنظیم محدود دائرہ میں ہی کام کر سکتی ہے اور اس دوران منظم منصوبوں کی کمی بھی دکھائی دیتی ہے۔
الکمالیہ اسکول سے ردی کی ٹوکری کو ہٹانے میں ٹیم کو دو ہفتوں کا وقت لگا۔ ہر روز جوان مرد اور خواتین یہاں جمع ہوتے ہیں، گندے فلور اور اینٹوں کو صاف کرتے ہیں اور کھڑکیوں کو لکڑی کے فریموں سے سہارا دیتے ہیں۔
الروزی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عمارت کو ثقافتی اور فنکارانہ سرگرمیوں کے لئے ایک مقام میں تبدیل کرنا ہے کیونکہ غزہ میں ایسی سہولیات بہت کم ہیں۔
غزہ کی وزارت سیاحت میں محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جمال ابو ردہ نے کہا "یہ واحد اسکول ہے جو اب بھی اپنے فن تعمیر کو برقرار رکھے ہوئے ہے، یہاں ابھی بھی کلاس روم ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس اسکول کو تعلیم اور حفظ قرآن کے لئے حالیہ عرصہ تک استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ یہ پرانا شہر ہے۔"
غزہ کے باشندے مالی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ اسرائیل لگاتار فلسطینی علاقوں کو تباہ کر رہا ہے اور ان علاقوں میں قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ایسے میں یہاں کے باشندوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس نے بھی یہاں کے صحت نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ یو این کے جو ادارے ان علاقوں میں کام کر رہے تھے انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔
آثار قدیمہ کے مقامات کا تحفظ یہاں اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے لیکن اس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ اگست میں اس عمارت کی تزعئین کاری کا کام شروع ہوا تھا جو جنوری میں مکمل ہونے والا ہے۔